بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ارحم نام رکھنا


سوال

ارحم نام رکھنا کیسا ہے ؟اور اس کا معنیٰ کیا ہے ؟

جواب

"ارحم" کا معنی ہے: زیادہ رحم دل، ایک حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو "ارحم امتی" یعنی امت کا سب سے زیادہ رحیم شخص کہا گیا ہے،  اور ایک اور حدیث میں ہے حضرت انسں بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی اور کو اپنے اہل وعیال پر رحم کرنے والا نہیں دیکھا، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی "ارحم" کا لفظ استعمال کیا  گیاہے،  اس لیے "ارحم" نام رکھنا جائز ہے اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ "ارحم" نام رکھنا اس لیے مناسب نہیں کیوں کہ "اَرحم" زیادہ رحم کرنے والے کو کہتے ہیں، اور وہ ذات اللہ رب العزت کی ہے، تو یہ شبہ درست نہیں ہے ؛ اس لیے کہ "ارحم" اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور یہ  مشترکہ اسماء میں سے ہے، اور اللہ کے علاوہ اور مخلوق کے لیے بھی اس کا  استعمال کیا گیا ہے، نیز عام طور پر اللہ کے لیے یہ لفظ جب استعمال ہوتا ہے تو  "ارحم الراحمین"  استعمال ہوتا ہے۔ 

ارشاد باری تبارک وتعالی ہے:

"وَأَيُّوْبَ إِذْ نَادٰى رَبَّه ٓأَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ ."[الأنبياء: 83]

"لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ."[يوسف: 92] 

مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے :

"عبد الله بن نمير قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا سلمة بن كهيل، عن أبي الزعراء، عن عبد الله ... قال: ثم يقول: أنا أرحم الراحمين، قال: فيخرج من النار أكثر مماأخرج من جميع الخلق برحمته حتى ما يترك فيها أحداً فيه خير." 

(كتاب الفتن ، 7/ 511،ط:مكتبة الرشد)

سنن ترمذی میں ہے :

"عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أرحم أمتي بأمتي أبو بكر." 

 (أبواب المناقب ، 5/ 664،ط:مصطفي البابي الحلبي )

صحیح مسلم میں ہے :

"عن أنس بن مالك، قال: «ما رأيت أحداً كان أرحم بالعيال من رسول الله صلى الله عليه وسلم."

 (كتاب الفضائل،4/ 1808،ط:دارإحياء التراث العربي )

فتاوی شامی میں ہے:

"وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى. 

 (قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفاً بأل."

 (كتاب الحظر والإباحة،6/ 417،ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں