بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو الحجة 1446ھ 12 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ دینے کا حکم


سوال

کیا جمعہ کی نماز  یا نماز عیدین کا خطبہ عربی میں ہونا ضروری ہے؟ یا مقامی زبان میں بھی دیا جاسکتا ہے؟ برائے مہربانی جواب دیں جس میں قرآن و حدیث اور فقہ کی روشنی میں جس قدر اجازت ہو وہ اجازت استعمال کی جاسکے۔

جواب

واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عربی زبان میں خطبہ دینے پر مواظبت فرمائی ہے ۔ نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عجمی علاقوں میں  باوجود دوسری زبانوں پر قادر ہونے کے غیر عربی میں خطبہ نہ دینے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ میں عربیت مقصود ہے۔لہذا جب عربی میں خطبہ مقصود  ہےاور اس پر مواظبت بھی ہے،تو یہ سنت مؤکدہ ہے اور سنت مؤکدہ کے چھوڑنے پر گناہ لازم آتا ہے ، اور اس کا چھوڑنا مکروہ تحریمی ہوتا ہے (ماخوذ از امداد الفتاوی، ج نمبر ۱، ص نمبر ۵۱۴، دار الاشاعت) ۔لہذا عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں جمعہ یا عیدین کے خطبہ دینا خلاف سنت ہونے کی وجہ سے نا جائز اور مکروہ تحریمی ہے۔ناقابل ِاعتبار عمل ،ترک ِخطبہ کے مترادف ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الرابع: (الخطبة فيه) فلو خطب قبله وصلى فيه لم تصح.

(قوله الخطبة فيه).. .لم يقيد الخطبة بكونها بالعربية اكتفاء بما قدمه في باب صفة الصلاة من أنها غير شرط ولو مع القدرة على العربية عنده خلافا لهما حيث شرطاها إلا عند العجز كالخلاف في الشروع في الصلاة."

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج نمبر ۲، ص نمبر ۱۴۷، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح شروعه) أيضا مع كراهة التحريم (بتسبيح وتهليل) وتحميد وسائر كلم التعظيم الخالصة له تعالى ولو مشتركة كرحيم وكريم في الأصح، وخصه الثاني بأكبر وكبير منكرا ومعرفا. زاد في الخلاصة والكبار مخففا ومثقلا (كما صح لو شرع بغير عربية) أي لسان كان،»

(قوله أيضا إلخ) أي كما صح شروعه بالتكبير السابق صح أيضا بالتسبيح ونحوه، لكن مع كراهة التحريم لأن الشروع بالتكبير واجب وقدمنا أن الواجب لفظ الله أكبر من بين ألفاظ التكبير الآتية. وقال في الخزائن هنا، وهل يكره الشروع بغير الله أكبر؟ تصحيحان. والراجح أنه مكروه تحريما، وأن وجوبه عام لا خاص بالعبد كما حرره في البحر للمواظبة التي لم تقترن بترك. اهـ."

(کتاب الصلاۃ، ج نمبر ۱،ص نمبر ۴۸۳، ایچ ایم سعید)

مصفی شرح المؤطا میں ہے:

"ولما لاحظنا خطب النبي صلي الله عليه و سلم و خلفائه رضي الله عنهم و هلم جرا فتنقحنا وجود اشياء منها الحمد و الشهادتين و الصلاة علي النبي و الامر بالتقوي و تلاوة اية و الدعاء للمسلمين و المسلمات و كون الخطبة عربية (الي قوله) و اما كونها عربية فلاسمرار اهل المسلمين في المشارق و المغارب به  مع ان في كثير من الاقاليم كان المخاطبون اعجميين و قال النووي في كتاب الاذكار حمد الله تعالي و يشترط كونها (خطبة الجمعة و غيرها) بالعربية."

(جواہر الفقہ، ج نمبر ۲، ص نمبر ۵۰۸، دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عربیت شرط نہیں ہے یعنی غیر عربی زبان مین بھی خطبہ ادا ہوجائے گا لیکن غیر عربی زبان میں خطبہ پڑھنا مکروہ بالاتفاق ہے کیونکہ قرون اولی مشہود  لہا بالخیر میں اس کا تعامل نہ تھا۔"

(کتاب الصلاۃ، ج نمبر ۳، ص نمبر ۲۷۰، دار الاشاعت)

جواہر الفقہ میں ہے:

"خطبہ جمعہ و عیدین کا عربی ہونا سنت اور اس کے خلاف دوسری زبانوں میں پڑھنا بدعت ہے۔"

(ج نمبر ۲، ص نمبر ۵۲۴، دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100819

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں