بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے بیٹے کو بھائی کہنے کا حکم


سوال

اپنے بیٹے کو  بھائی کہنا کیسا ہے؟

جواب

بھائی بندی یا اخوت کا اصل معنی ولادت میں شریک ہونا ہے، لیکن کبھی کبھار کسی اور شریک کے لیے بھی اس کااستعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قبیلہ، پیشہ، دین، معاملات یا محبت یا کسی اور تعلق کی بنا پر دو شریکوں کو بھائی کہا جاتا ہے، اور ہر وہ چیز جس میں اتفاق ہو اس پر بھی "اُخُوۃ" یعنی بھائی چارہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے،  اور سب سے مضبوط  بھائی چارہ دین کی نسبت سے ہے؛  اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف مؤمنوں کے درمیان قائم رکھا، نہ کہ کسی اور کے درمیان۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ} [الحجرات: 10]    ترجمہ: ’’بے شک مؤمن آپس میں بھائی ہیں۔" (سورۂ حجرات ۱۰)

لہذا بیٹے کو اخوتِ اسلامی کی بنا  پر بھائی کہنا تو صحیح ہے،  البتہ مناسب نہیں ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري  میں ہے:

"قَوْله: (الْمُسلم أَخُو الْمُسلم) ، يَعْنِي أَخُوهُ فِي الْإِسْلَام، وكل شَيْئَيْنِ يكون بَينهمَا اتِّفَاق تطلق عَلَيْهِمَا اسْم الْأُخوة. وَقَوله: الْمُسلم، تنَاول الْحر وَالْعَبْد والبالغ والمميز."

(باب أعن أخاك ظالمًا أو مظلومًا، ج:12، ص:289، ط: داراحياء التراث العربى)

دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين میں ہے:

" (وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المسلم أخو المسلم) قال تعالى: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ} [الحجرات: 10] قال البيضاوي: أي من حيث إنهم منسوبون إلى أصل وهو الإيمان الموجب للحياة الأبدية اهـ. ورتب على هذه الأخوة المقتضية لمزيد الشفقة والتناصر والتعاون. "

(باب تعظيم حرمات المسلم، ج:3، ص:18، ط:دارالمعرفة)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144208200290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں