بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ


سوال

 میں  اپناحصہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہوں ۔ میرا ایک بیٹا پیدائشی بینائی سے معذور ہے اور لا اولاد بھی ہے، ( عمر تقریبًا پچاس سال ) ،زندگی بھر میں نے اس کی خدمت کی ، کیا میں اپنے اس معذور بیٹے کو باقی اولا د( بیٹے اور بیٹیوں ) سے کم حصہ یعنی باقی بیٹوں ( جنہوں نے زندگی بھر میری خدمت کی ) سے نصف حصہ دے سکتی ہوں ؟ جو کہ اس کے والد سے ملنے والی وراثت کے علا وہ ہے ۔

جواب

والدین اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے جو کچھ  اپنی اولاد میں تقسیم کرتے ہیں  اس کی حیثیت  ہبہ کی ہوتی ہے، اور ہبہ کے حوالے سے شریعتِ مطہرہ نے والد ین کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد میں برابری کریں، یعنی جتنا بیٹے کو دیں اتنا ہی بیٹی کو دیں اور تمام اولاد کے درمیان عدل اور مساوات سے کام لیں ،کسی معقول شرعی عذر کے بغیر کسی کو کم اور کسی کو زیادہ، یا کسی کو دینے اور کسی کو محروم رکھنے کا اختیار نہیں دیا ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اولاد کے درمیان  ہبہ کرنے میں برابری کا حکم دیا ہے ،حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: أكل ولدك نحلت مثله؟ قال: لا قال: فأرجعه. وفي رواية قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم." 

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الهبة، باب العطایا، 261/1، ط:قدیمي کتب خانہ)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف كرو۔"

لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر سائلہ اپنی زندگی میں اپنی جایئداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں تواس کا شرعی طریقہ  یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لئے جتنا چاہے رکھ لے  تاکہ بوقت ِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ جائیداد اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہو گی اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔ البتہ اگر کسی اولاد کو اس کی زیادہ خدمت کرنے  کی وجہ سے یا اس کے غریب یا محتاج ہونے کی وجہ سے بنسبت اوروں کے کچھ زیادہ دینا چاہے تو دے سکتی ہے  ،لیکن معذور اولاد کو اس وجہ سے کم دینا کہ اس نے کوئی خدمت  نہیں کی ، درست نہیں ،بلکہ وہ تو زیادہ محتاج ہے ،اس کا زیادہ لحاظ رکھنا چاہئے۔

باقی والد كی طرف سے ملنے والی  ميراث ميں اس معذور بيٹے كا جو حصہ ہے اس ميں كمی بيشی كرنے كا كسی كو حق حاصل نہيں ہے، ہر وارث اپنے پورے شرعی حصہ کے بقدر حق دار ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ." 

(كتاب الهبة ، الباب السادس فى الهبة للصغير، 391/4، ط: مكتبه رشيديه)   

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: متى وقف) أي على أولاده لأنه منشأ الجواب المذكور كما تعرفه، وبه يظهر فائدة التقييد بقوله حال صحته (قوله كما حققه مفتي دمشق إلخ) أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» ‌فالعدل ‌من ‌حقوق ‌الأولاد ‌في ‌العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلا تنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لا يعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ."

(كتاب الوقف ، مطلب متي ذكر الواقف شرطين متعارضين يعمل بالمتأخر، 444/4 ط: ايچ ايم سعيد )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308102080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں