بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی بیٹی کی سوتیلی نواسی سے نکاح کا حکم


سوال

ایک شخص کی بیٹی نے ایک آدمی سے شادی کی، وہ آدمی شادی شدہ اور عمر رسیده بھی هے، اب جس بندے نے بیٹی اس صاحب کو دی اسی کی نواسی  کے ساتھ شادی بھی کی، حال آں کہ  وہ بچی اس کی بیٹی کی بھی سوتیلی نواسی بن گئی، اب آپ قران و سنت کے مطابق راه نمائی فرمائیں کہ یہ شادی حرام ہے یا حلال؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا نکاح اپنی بیٹی کی سوتیلی نواسی سے جائز ہے ۔

عنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

" ولا بأس ‌بأن ‌يجمع ‌بين ‌امرأة وبنت زوج كان لها من قبل لأنه لا قرابة بينهما ولا رضاع وقال زفر - رَحِمَهُ اللَّهُ - : لا يجوز لأن بنت الزوج لو قدرتها ذكرا لا يجوز له التزوج بامرأة أبيه. قلنا: امرأة الأب لو صورتها ذكرا جاز له التزوج بهذه، والشرط أن يصور ذلك من كل جانب

م: (والشرط أن يصور ذلك من كل جانب) ش: كما كان في الأختين كذلك، لأن ذلك هو المنصوص عليه، وما نحن فيه فرع عليه، فيجب أن يكون الفرع على وفاق الأصل. وقد صح أن عبد الله بن جعفر جمع بن امرأة علي وابنته، قال السروجي: ذكر البخاري أن عبد الله بن جعفر جمع بين ابنة علي، وامرأة علي _ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ - _ عن ابن عباس أنه جمع بين امرأة رجل وابنته من غيرها، رواه الدارقطني ".

(البناية شرح الهداية، كتاب النكاح، ج:5 / ص:33 ، 34، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"لو جاوز نكاح إحداهما على تقدير مثل المرأة وبنت زوجها أو امرأة ابنها فإنه يجوز الجمع بينهما عند الأئمة الأربعة، وقد جمع عبد الله بن جعفر بين زوجة علي وبنته ولم ينكر عليه أحد، وبيانه أنه لو فرضت بنت الزوج ذكرا بأن كان ابن الزوج لم يجز له أن يتزوج بها؛ لأنها موطوءة أبيه ولو فرضت المرأة ذكرا لجاز له أن يتزوج ببنت الزوج؛ لأنها بنت رجل أجنبي، وكذلك بين المرأة وامرأة ابنها فإن المرأة لو فرضت ذكرا لحرم عليه التزوج بامرأة ابنه ولو فرضت امرأة الابن ذكرا لجاز له التزوج بالمرأة؛ لأنه أجنبي عنها".

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق، كتاب النكاح، ج:3 / ص:105، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويجوز بين ‌امرأة ‌وبنت ‌زوجها فإن المرأة لو فرضت ذكرا حلت له تلك البنت بخلاف العكس".

(الفتاوى الهندية، كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، ج:1 / ص:277، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں