بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے گھر پر بچوں کو قرآنِ مجید پڑھاکر فیس لینا اور قرآن پڑھانے کی فیس کے بدلے فن سیکھنا کا حکم


سوال

1. گھر پر قاعدہ و ناظرہ پڑھانے کی فیس لینا کہ جس میں وقت اور دیگر اخراجات مثلا پنکھا اور لائٹ وغیرہ کے اخراجات ہوتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے ؟

2. کسی کو قرآن شریف پڑھانا اور اس سے دنیاوی فن سیکھنا اور نیت یہ ہو کہ قرآن شریف گھر پر پڑھانے کی فیس کی جگہ اس سے یہ فلاں فن سیکھ لے(باہر جا کر سیکھنے میں بے پردگی کا احتمال ہے)یہ عمل کیسا ہے ؟ اگر جائز نہیں تو اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟کہ ایک شخص نے ایسا کرلیا کہ قرآن شریف پڑھادیا اور جسے پڑھایا اس سے بطورِ فیس یا پڑھانے کی اجرت کی جگہ وہ فن سیکھ لیا؟

جواب

1. تعلیمِ قرآن یعنی قرآنِ کریم کی تعلیم دینے، حفظ و ناظرہ پڑھانے پر اجرت لینے کو متأخرینِ احناف نے بوجہ ضرورت جائز قرار دیا ہے، لیکن یہ اجرت اصل میں قرآن پڑھانے کی نہیں ہوتی، بلکہ ان کاموں کے لیے  اپنے آپ کو محبوس  اور دیگر کاموں سے فارغ رکھ کر وقت دینے کی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ کی رضا کے لیے بچوں کو قاعدہ اور سپارہ پڑھاتا ہے، پیسے لینا مقصود نہیں ہو تو وہ اگر اپنے اس وقت کے بدلہ میں جو وہ دیتا ہے  تو اس کے بدلے بطورِ اجرت کچھ پیسے لے لے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

2. صورتِ مسئولہ میں اگر شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے جائز فن سیکھاجائے اور سکھانے والے کوقرآن کریم پڑھایا جائے، توا یسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،جائزہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه) ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان."

"(قوله ‌ولا ‌لأجل ‌الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله عليه الصلاة والسلام اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمرو بن العاص «وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه."

"(قوله ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضا في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار."

(‌‌كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على الطاعات، ج:6، ص:55، ط:سعيد)

"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" میں ہے:

"قال رحمه الله (‌والفتوى ‌اليوم ‌على ‌جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك وقالوا بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، أخذ أجرة الحجام، ج:8، ص:22، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں