بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا بغیر محرم کے حج کرنے کا حکم


سوال

کیا عورت کا  بغیر محرم کے حج ہو سکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے حج پر جانے کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ مکہ مکرمہ سے مسافتِ سفر کی مقدار دور ہوں تو ان کے ساتھ شوہر یا دیگر کسی محرم کا ہونا ضروری ہے۔ محرم کے بغیر سفر کرنا عورتوں کے لیے ناجائز اور حرام ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، کسی بھی حالت میں جانا جائز نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ اگر وہ مالدار ہے اور اس کا شوہر یا کوئی محرم نہیں ہے یا محرم ہے مگر محرم کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی تو اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ انتظار کرتی رہے، تاآں کہ  محرم کا بندوبست ہوجائے یا محرم کے اخراجات کا بندوبست ہوجائے۔ اگر زندگی بھر محرم کا بندوبست نہ ہوسکے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مرنے سے قبل حج بدل کی وصیت کرجائے، تاکہ لواحقین حج بدل کرسکیں۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لا يخلون رجل بامرأة ولا تسافرن امرأة إلا ومعها محرم» . فقال رجل: يا رسول الله اكتتبت في غزوة كذا وكذا وخرجت امرأتي حاجة قال: اذهب ‌فاحجج ‌مع ‌امرأتك."

( کتاب المناسک،ج:2، ص: 773، رقم الحدیث:2513، ط:  المکتب الاسلامي بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا  إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع والمحرم الزوج، ومن لا يجوز مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو مصاهرة كذا في الخلاصة ويشترط أن يكون مأمونا عاقلا بالغا حرا كان أو عبدا كافرا كان أو مسلما هكذا في فتاوى قاضي خان والمجوسي إذا كان يعتقد إباحة مناكحتها لا يسافر معها كذا في محيط السرخسي والمراهق كالبالغ وعبد المرأة ليس بمحرم لها كذا في الجوهرة النيرة ولا عبرة للصبي الذي لا يحتلم والمجنون الذي لا يفيق كذا في محيط السرخسي وتجب عليها النفقة والراحلة في مالها للمحرم ليحج بها، وعند وجود المحرم كان عليها أن تحج حجة الإسلام، وإن لم يأذن لها زوجها، وفي النافلة لا تخرج بغير إذن الزوج، وإن لم يكن لها محرم لا يجب عليها أن تتزوج للحج كذا في فتاوى قاضي خان ثم تكلموا أن أمن الطريق وسلامة البدن - على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ووجود المحرم للمرأة شرط لوجوب الحج أم لأدائه، بعضهم جعلوها شرطا للوجوب وبعضهم شرطا للأداء، وهو الصحيح وثمرة الخلاف فيما إذا مات قبل الحج فعلى قول الأولين لا تلزمه الوصية وعلى قول الآخرين تلزمه كذا في النهاية".

(کتاب المناسک ،ج:1،ص:218،دارالفکر)

المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے:

"‌والمحرم ‌في ‌حق ‌المرأة شرط، شابة كانت أو عجوزاً إذا كان بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام."

(كتاب المناسک، ج:2، ص: 419، ط: دارالکتب العلمية بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں