کیا ایک مجلس میں گواہ کی موجودگی کے بغیر دی جانے والی تین طلاقیں ایک مانی جاتی ہے؟
قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے متفقہ فتوی کی رو سے ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں چاہے اس پر کوئی گواہ ہو یا نہ ہو، جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ان کا قول قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ کے متفقہ فتوی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث".
(کتاب الطلاق، ج:3، ص:233، ط:ایچ ایم سعید)
شرح النووي على مسلم میں ہے:
"وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا، فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَ مَالِكٌ وَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَ الْخَلَفِ: يَقَعُ الثَّلَاثُ."
(کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، ج:1، ص:474، ط:قدیمی کتب خانہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100269
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن