بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجنبی عورت کے ساتھ جنسی تعلقات کی وجہ سے کیا اس کی بہن کے ساتھ نکا ح حرام ہے


سوال

 اگر ایک آدمی کا ایک عورت کے ساتھ جنسی شہوت کا تعلق ہو اور اس کے ساتھ نکاح نہ ہوا ہو تو کیا اس عورت کی بہن سے نکاح ہو سکتا  ہے؟

جواب

  واضح رہے کہ اجنبی عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا حرام ہے،   اس پر توبہ واستغفار کرنا چاہیے، تاہم  اجنبی عورت کے ساتھ جنسی تعلقات  کی وجہ سے  اس کی بہن  اس پر حرام نہیں ہوتی ، اس لیے  اس اجنبی عورت  کی بہن کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله: وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها."

(كتاب النكاح ، فصل في المحرمات، ج: 3، ص؛ 32، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"مقتضى قوله والكل رضاعا مع قوله سابقا، ولو من زنى حرمة فرع المزنية وأصلها رضاعا، وفي القهستاني عن شرح الطحاوي عدم الحرمة، ثم قال: لكن في النظم وغيره أنه يحرم كل من الزاني والمزنية على أصل الآخر وفرعه رضاعا. اه ومقتضى ‌تقييده بالفرع والأصل أنه لا خلاف في عدم الحرمة على غيرهما من الحواشي كالأخ والعم. وفي التنجيس زنى بامرأة فولدت فأرضعت بهذا اللبن صبية لا يجوز لهذا الزاني تزوجها ولا لأصوله وفروعه، والعم الزاني التزوج بها كما لو كانت ولدت له من الزنى، والخال مثله؛ لأنه لم يثبت نسبها من الزاني، حتى يظهر فيها حكم القرابة والتحريم على أبي الزاني وأولاده وأولادهم لاعتبار الجزئية ولا جزئية بينها وبين العم، وإذا ثبت ذلك في المتولدة من الزنى فكذا في المرضعة بلبن الزنى."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 31، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509102370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں