بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک خطبہ عربی میں دینا


سوال

ہمارے علاقے کی ایک مسجد میں جمعہ کی پہلی اذان کے بعد پہلے خطبے میں اردو میں ایک حدیث شریف بیان کرکے اس کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے خطبے میں عربی میں پڑھ کر جمعہ کی نماز شروع کر دیتے ہیں، وہاں عصر کی نماز ایک مثل کے بعد ادا کی جاتی ہے. ہم نماز عصر دو مثل کے بعد ادا کرتے ہیں. کبھی کبھی بوجہ مجبوری ہم جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کر سکتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کی نماز صحیح ہونے کے لیے خطبہ کا ہونا شرط ہے  اور دو خطبوں کا ہونا  مسنون اور سنتِ متوارثہ ہے،   جمعہ کے دونوں خطبے عربی زبان میں ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ  جمعہ کے خطبے میں وعظ کے ساتھ بنیادی پہلو ذکر اللہ ہے، [الجمعہ:فاسعوالی ذکر اللہ ] اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی عجمی ممالک فتح کرنے کے بعد  اسی پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے عجمی ملکوں میں بھی ہمیشہ جمعہ کا خطبہ عربی میں ہی دیا، اور اہلِ عجم کے لیے ان کی زبان میں ترجمانی کی فکر وسعی نہیں کی، لہٰذا قرنِ اول سے امت کے مسلسل تعامل کی بنا پر جمعے کا خطبہ عربی میں ہونا ضروری ہے، اس لئے فقہی اعتبار سے خطبہ کا بعض حصہ غیر عربی زبان میں دینے کی گنجائش نہیں ہے،غیر عربی میں خطبہ دینا مکروہ تحریمی ہے ،لہذا اگر اپنے مسلک کی مسجد مل جائے تو وہاں جا کر جمعہ کی نماز ادا کی جائے ورنہ حنفی حضرات جمعہ کا الگ انتظام کریں۔

اسی طرح عصر کی نماز کا وقت دو مثل کے بعد ہی ہو تا ہے لہذا عصر کی نماز دو مثل کے بعد ہی پڑھنی چاہیے ،اگر اس کے علاوہ کوئی حنفی مسجد ہے تو وہاں جاکر نماز پڑھی جائے ،یا  دو مثل کے بعد ہی عصر کی جماعت کروائی جائے لہذامثل اول میں نما ز پڑھنا درست نہیں ۔

مجموعہ رسائل لکھنوی میں ہے:

"الخطبة بالفارسية التي احدثوها واعتقدوا حسنها ليس الباعث اليها الا عدم فهم العجم اللغة العربية ، وهذا الباعث قد كان موجودا في عصر خير البرية، وان كانت في اشتباه فلا اشتباه في عصر الصحابة والتابعين  ومن تبعهم من الائمة المجتهدين حيث فتحت الامصار الشاسعة والديار الواسعة واسلم كثير الحبش والروم والعجم وغيرهم من الاعجام، وحضروا مجالس الجمع والاعياد وغيرها من شعائر الاسلام، وقد كان اكثرهم لا يعرفون اللغة العربية، ومع ذالك لم يخطب لهم احد منهم بغير العربية، ولما ثبت وجود الباعث في تلك الازمنة وفقدان المانع والتكاسل ونحوه معلوم بالقواعد المبرهنة لم يبق الا الكراهة التي هي اوفى درجات الضلالة".

(رسالۃ آکام النفائس فی الاذکار بلسان الفارس، (46، 47، 4/378) ، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ)

عمدۃ الرعایۃ میں ہے:

"لاشك في ان الخطبة بغير العربية خلاف السنة المتوارثة عن النبي صلي الله عليه وسلم والصحابة رضي الله تعالي عنهم، فيكون مكروها تحريما".

( کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعہ،324/2، دارالکتب العلمیۃ)

 فتاوی شامی  میں ہے:

"قال ابن عابدين ناقلاً عن السراج: " هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا؟ الظاهر الأول، بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام، تأمل، ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلاً عن بعض الفتاوى: أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض، فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض".

(کتاب الصلوۃ ،359/1،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں