ایک بار طلاق دینے سے طلاق ہو جاتی ہے تو دوبار ہ نکاح کی ضرورت ہو گی یا نہیں؟
اگر ایک بار طلاق رجعی دی ہو تو عدت (تین ماہواری بشرطیکہ حاملہ نہ ہو) کے اندر رجوع کرنے کی صورت میں نکاح برقرار رہتا ہے اور دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ عدت کے اندر رجوع نہ کرنے کی صورت میں عدت ختم ہوتے ہی نکاح ٹوٹ جائے گا اور پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا پڑے گا، اسی طرح اگر کسی ایسے لفظ سے طلاق دی ہو جس لفظ سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہو تو طلاقِ بائن واقع ہونے کی وجہ سے طلاق دینے کے وقت سے ہی نکاح ٹوٹ جائے گا اور عدت کے اندر رجوع کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی، بلکہ دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہی کرنا پڑے گا، خواہ عدت میں نکاح کیا جائے یا عدت کے بعد۔ بہرصورت چاہے طلاقِ رجعی ہو یا بائن، آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔
نوٹ: رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں آپ سے رجوع کرتا ہوں، یہ رجوعِ قولی کہلاتا ہے، یا شوہر بیوی کے ساتھ زوجین والے تعلقات قائم کرلے ، یہ رجوع فعلی کہلاتا ہے، بہتر یہ ہے کہ قولی رجوع کرکے اس پر گواہ مقرر کرلیے جائیں، اور رجوعِ فعلی کرنے کو (یعنی زبان سے رجوع کیے بغیر، میاں بیوی کا تعلق قائم کرنے کو) فقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200848
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن