بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

120 سال بعد کسی زمین پر ملکیت کا دعوی کرنا


سوال

ایک زمین ہے جو ایک سو بیس سال سے ہمارے پاس ہے ،ہم اس میں کھیتی باڑی کر رہے ہیں ،ہم نے اس  میں کبھی کسی کو حصہ نہیں دیا اور نہ ہی کسی فریق نے ہم سے مانگا ،آج تک اس زمین پر کسی نے کوئی دعوی نہیں کیا ہے ،آج ایک قبیلہ(جو ہمارے گاؤں سے 20کلو میٹرکے فاصلہ پر ہے) 120 سال بعد اس زمین پر ملکیت کا دعوی کر رہا ہے ،ہماری آفریدی قوم کے مطابق فیصلہ قرآن پر ہوتا ہے، یعنی ہمیں قرآن پر ہاتھ رکھ کر  یہ قسم کھانی پڑے گی کہ ہمارے علم کے مطابق ان کا اس زمین پر 120 سال سے کوئی حق نہیں ہے ،ہم مقدمہ لڑنا نہیں چاہ رہے ہیں, لیکن ہم مجبور ہیں ، کیا اس طرح(یعنی قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانا) کرنا جائز ہے یا نہیں؟فریقِ مخالف اس علاقے میں مقیم تھے یا نہیں؟ اس کا کسی کو  کچھ پتہ نہیں ہے،لیکن اس زمین پر دعوی کر رہے ہیں ،ہماری دادی کا انتقال 1999 میں ہوا ہے ،ان کی عمر تقریبا ً 120 سال تھی ،انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا ہے کہ یہ زمین کسی اور کی ہے،آپ ہماری راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ  کسی بھی  چیز پر عرصہ دراز تک قبضہ کرنے سے  اصل مالک کی ملکیت اس چیز   سے ختم نہیں ہوتی  ہے ،  بلکہ وہ اصل مالک کی ملکیت میں باقی رہتی ہے،لیکن چوں کہ زمانہ خیر کا نہیں رہا ،شر و فساد کا دور ہے، حیلہ سازی اور فریب کاری عام ہے،غلط طریقے اور ناجائز بہانے سے مدت دراز کے بعد ناجائز دعوے پیش کیے جانے کا قوی اندیشہ ہے، اس لیے فقہاء متاخرین نے شرعی اجتہاد کی رو سے وقت کی ضرورت کے تحت شرعی عذر کے بغیرپندرہ سال کے  بعد  پیش آنے والے مقدمات عام عدالتوں کے لیے   اورتیس سال یا تینتیس سال یا چھتیس سال (علی مختلف الاقوال )کے بعد پیش آنے والے مقدمات حاکم وقت یااس کی طرف سے متعینہ خصوصی عدالت کے لیے ناقابل سماعت قرار دیے ہیں ؛اس لیے اگر کوئی شخص  بغیر کسی شرعی عذر کے تیس سال /تینتیس سال /چھتیس سال    کے بعد دعوی کرتا ہے تو اس کی سماعت کا اختیار نہ    حاکم وقت اور اس کی طرف سے متعینہ خصوصی عدالتوں کو   ہے اور نہ ہی عام عدالتوں کو ۔

البتہ   اگر کسی   معقول اور شرعی عذر کی بناء پر پندرہ سال /تیس سال / تینتیس سال / چھتیس سال کے اندر  اپنے دعوی کو عدالت میں پیش نہ کر سکا تو کسی مدت کی تعیین کے  بغیر حاکم ِوقت اور   ہر عام و خاص عدالت کو  اس کے مقدمہ کی سماعت اختیار ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ قبیلہ نے بغیر کسی شرعی عذر کے  120 سال کے  بعد دعوی کیا ہے کہ مذکورہ زمین ان کی ہےتو ان کا یہ دعوی    قابلِ سماعت نہیں ہے  ۔  اور اگر آفریدی قوم قسم اٹھانا چاہیں تو قسم اٹھاسکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فلا ينافي ما في الأشباه وغيرها من أن الحق لا يسقط بتقادم الزمان اهـ"

(کتاب القضاء ،ج:5،ص:420،ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

"القضاء مظهر لا مثبت ويتخصص بزمان ومكان وخصومة حتى لو أمر السلطان بعد سماع الدعوى بعد خمسة عشر سنة فسمعها لم ينفذ.قلت: فلا تسمع الآن بعدها إلا بأمر إلا في الوقف والإرث ووجود عذر شرعي وبه أفتى المفتي أبو السعود فليحفظ"

(رد المحتار ،کتاب القضاء ،ج:5،ص:420،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"يجب على السلطان الذي نهى قضاته عن سماع الدعوى بعد هذه المدة أن يسمعها بنفسه، أو يأمر بسماعها، كي لا يضيع حق المدعي"

(کتاب القضاء ،ج:5،ص:420،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي جامع الفتوى عن فتاوى العتابي قال المتأخرون من أهل الفتوى: لا تسمع الدعوى بعد ست وثلاثين سنة إلا أن يكون المدعي غائبا أو صبيا أو مجنونا وليس لهما ولي أو المدعى عليه أميرا جائرا اهـ. ونقل ط عن الخلاصة لا تسمع بعد ثلاثين سنة اهـ. ثم لا يخفى أن هذا ليس مبنيا على المنع السلطاني بل هو منع من الفقهاء فلا تسمع الدعوى بعده وإن أمر السلطان بسماعها"

(کتاب القضاء ،ج:5،ص:420،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100608

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں