بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک روزے کے کفارے اور فدیے کا بیان


سوال

ایک روزہ کا  کفارہ کتنا ہے؟ اور کتنے مسکینوں کا کھانا دینا ہے؟

جواب

جواب سے پہلے یہ سمجھ  لیجیے،  ایک ہے روزے کا کفارہ، دوسرا ہے روزے کا فدیہ۔ دونوں کا حکم درج کیا جاتاہے:

1- وہ شخص جس میں روزہ فرض ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں، رمضان کے اُس اَدا روزے میں جس کی نیت صبح صادق سے پہلے کرچکا ہو عمداً  روزہ توڑدے، یعنی بدن کے کسی جوف میں قدرتی یا مصنوعی منفذ  (Opening) سے کوئی ایسی چیز پہنچائے جو انسان کی غذا یا دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہو یا جماع کرے یا کرائے ان تمام صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور روزے کی قضا کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوگا، اور اس فعل پر توبہ واستغفار بھی کرنا لازم ہوگی۔

کفارے  میں اس پر مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ضروری ہوگا، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے تو از سرِ نو رکھنا لازم ہوں گے،  اگر اس کی  قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے ،  ایک صدقہ فطر کی مقدار  نصف صاع (پونے دو کلو ) گندم یا اس کی قیمت  ہے۔

ایک مسکین کو  ساٹھ دن صدقہ فطر  کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے ،  دونوں جائز ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت  دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا۔

اور اگر آپ کی مراد روزے کے کفارے  سے فدیہ ہے  تو اس کی تفصیل یہ ہے:

2- جو شخص بڑھاپے یا دائم المریض ہونے کی وجہ سے روزے رکھنے پر قادر نہ ہو اور نہ ہی مستقبل میں اس کی صحت کی کوئی امید ہو تو ایسے شخص کو ہر روزے کے بدلے میں پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت بطورِ فدیہ دینی ہوگی، لیکن اس کے بعد اگر صحت یاب ہو گیا تو دوبارہ روزے قضاکرنا ضروری ہوگا، اور جو رقم فدیے میں دی وہ صدقہ شمار ہوگی،  عام بیماری جس میں صحت یابی کی امید ہو اس میں روزے کا فدیہ ادا کرنا درست نہیں ہے۔

اگر  روزوں کی ادائیگی پر قدرت حاصل ہونے کے بعد کوئی شخص زندگی میں روزے نہ رکھے تو ایسے شخص پر موت سے پہلے وصیت کرنا لازم ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے مال میں سے میرے اوپر واجب الادا قضا روزوں کا فدیہ ادا کردیا جائے، اگر کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا روزے باقی ہوں تو اگر اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہوگا کہ اس کے ایک تہائی ترکہ  میں سے فی روزہ ایک فدیہ ادا کریں، لیکن ایک تہائی سے زائد سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، اسی طرح اگر اس نے وصیت ہی نہ کی ہو تو بھی ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم  نہیں، البتہ ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 205):

"من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة... إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين ... وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه، كذا في الكشف الكبير".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں