بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مجلس میں تین مرتبہI divorce youکہنے کا حکم


سوال

 میری بیوی کی دماغی بیماری کی وجہ سے ہم ایک سال سے الگ رہ رہے ہیں، ایک گفتگو کے دوران میں نے5 دسمبر 2023كو یہ جملہ بولا کہ بولا I divorce you،تاہم جب میری بیوی نے پوچھا کہ کیا یہ طلاق ہے، تو میں نے واضح کیا کہ اس کا مقصد فوری طلاق نہیں تھا، بلکہ مستقبل میں طلاق کے امکان کا ذکر تھا، بدقسمتی سے میری بیوی نے اس بیان کے بعد عدت نہیں کی، 25 دسمبر 2023 کو ایک بار پھر چیٹ کے دوران، میں نے مستقبل میں اسے طلاق دینے کے اپنے ارادے پر زور دینے کے لیے "i divorce you I divorce you I divorce you کا جملہ دہرایا، میں نے اپنے الفاظ کی سنجیدگی پر زور دینے کے لیے ایک حلف بھی شامل کیا، اس کے بعدہم نے سعودی عرب میں ایک مقامی قاضی (جج) سے مشورہ طلب کیا،  اس نے ایک ہمیں ایک رجعی طلاق کابتایا،اب میں اس معاملے پر آپ سے محترم فتویٰ (اسلامی حکم) کی درخواست کرتا ہوں،براہِ کرم ہمیں مذکورہ طلاقوں کی درستگی اور منسوخی کے بارے میں مشورہ دیں اور مناسب طریقہ کار کے بارے میں ہماری رہنمائی کریں۔ 

جواب

واضح رہے کہ divorce کا لفظ انگریزی زبان میں طلاق ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے،اور"I divorce you"(یعنی میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)Present Simple(یعنی فعلِ مضارع)کاصیغہ ہے،جس کااستعمال لغۃً توحال اورمستقبل(موجودہ اورآنےوالے)دونوں زمانوں کےلیےہوتاہے،تاہم"I divorce you"(یعنی میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)کاغالب استعمال چوں کہ موجودہ زمانےمیں طلاق دینےکےلیےہوتاہے،اس لیےاس سےفوری طلاقِ رجعی واقع ہوجاتی ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کااپنی بیوی کو"I divorce you"کہنے سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوچکی تھی،پھر25 دسمبر 2023 کو بیوی کی عدت کے اندر اپنی بیوی کوتین مرتبہ یہ "i divorce you I divorce you I divorce you"کہنےسےمزیددوطلاقیں واقع  ہوچکی ہیں،میاں بیوی  کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  اب نہ تو رجوع کرنا جائز ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز ہے، بیوی عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،  دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں اگر ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو اس دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔

سعودی عرب کے مقامی قاضی کا یہ کہنا  کہ"  سائل کا i divorce you I divorce you I divorce youمذکورہ جملہ تین مرتبہ دوہرانے سےصرف ایک طلاقِ رجعی واقع ہوئی ہے"درست نہیں ہے؛اس لیے کہ  ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینا خلافِ سنت  ضرورہے، ایسا کرنے والا  گناہ  گارہے، جس کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح تین طلاقیں دے دے تو قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمولِ ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ،  حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے نزدیک ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ان کا قول  قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ  کے مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے،لہذاسعودی عرب کے مقامی قاضی کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاقِ رجعی قراردینا درست نہیں ہے۔

نیز تین طلاقوں کے بعد میاں بیوی  کا دوبارہ  تعلق قائم کرنا  بدکاری ہے  دونوں پر خوب توبہ و استغفار لازم ہے، اگر ابھی  بھی  دونوں  ساتھ ہیں تو   فورًا علیحدگی اختیار کریں،  ایک حدیثِ مبارک  میں آتا ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے قیامت کی علامات کا پوچھا تو آپ ﷺ نے قیامت کی بعض علامات بتلائیں، اور اس میں یہ بھی ذکر کیا کہ اے ابن مسعود ! قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ زنا کی اولاد بڑھ جائے گی، حدیث روایت کرنے والے فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن مسعود سے پوچھا کہ کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ تو انہوں نے کہا: وہ مسلمان ہوں گے، میں نے کہا: کیا قرآن مجید بھی ان کے پاس ہوگا؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، تو میں نے کہا: یہ کس طرح ہوگا؟ تو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے گا، پھر اس کی طلاق کا انکار کرے گا، اور پھر اس کے ساتھ ہم بستری کرے گا، تو جب تک وہ ایسا کرتے رہیں وہ دونوں زنا کرنے والے ہیں۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ ."[البقرة: 230]

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔" (بیان القرآن)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول".

(کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث، ج: 7، ص: 43، رقم: 5261، ط:سلطانیة)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی،پھر ان کی بیوی نے دوسری شادی کر لی، پھر دوسرے شوہر نے بھی (ہمبستری سے پہلے) انہیں طلاق دے دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا(اب)وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، یہاں تک کہ وہ یعنی شوہر ثانی اس کا مزہ چکھے جیسا کہ پہلے نے مزہ چکھا تھا۔"

المعجم الكبیرللطبرانی میں ہے:

"عن  ابن مسعود : قلت: يا رسول الله، هل للساعة من علم تعرف به الساعة؟ فقال لي: «يا ابن مسعود، إن للساعة أعلامًا، وإن للساعة أشراطًا، ألا وإن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكون الولد غيظًا، وأن يكون المطر قيظًا، وأن تفيض الأشرار فيضًا، ..... يا ابن مسعود، إن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكثر أولاد الزنى». قلت: أبا عبد الرحمن، وهم مسلمون؟ قال: نعم، قلت: أبا عبد الرحمن، والقرآن بين ظهرانيهم؟ قال: «نعم»، قلت: أبا عبد الرحمن، وأنى ذاك؟ قال: «يأتي على الناس زمان يطلق الرجل المرأة، ثم يجحد طلاقها فيقيم على فرجها، فهما زانيان ما أقاما."

(باب العين،من مناقب ابن مسعود، ج: 10، ص: 228، رقم:10556، ط: مکتبة ابن تيمية)   

شرح النووی علی المسلم میں ہے:

"‌وقد ‌اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف ‌يقع ‌الثلاث."

(كتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، ج:10، ص:70، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(كتاب الطلاق ،ركن الطلاق، ج:3، ص:233، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا".

(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1، ص:349، ط: رشيدية)

فتح القدیر میں ہے:

"ولا يقع بأطلقك ‌إلا ‌إذا ‌غلب ‌في ‌الحال."

[كتاب الطلاق، باب إيقاع الطلاق، ج:4، ص:7، دار الفكر]

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"صيغة ‌المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."

(كتاب الطلاق،ج:1،ص:38،ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں