بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ماہ کے بچے کے بعد حمل ٹھہر جائے تو اس کو ساقط کروانے کا حکم


سوال

میرا ایک بیٹا ڈیڑھ سال کا ہے اور اس سے چھوٹا سات ماہ کا ہے، یہ ابھی ابھی ایک ماہ کا ہی تھا کہ مجھے پھر حمل ہو گیا تھا،  ڈاکٹر سے مشورے کے بعد میں نے اور میرے شوہر نے متفقہ طور پر بچوں کی پرورش اور میری صحت کے پیش نظر حمل ختم کروا دیا ۔ مجھے جاننا ہے کہ اللہ کا کیا حکم ہے اور ہم نے صحیح کیا یا غلط ؟

جواب

واضح رہے کہ اگر ماں کی صحت کافی حد تک خراب ہو اور اس بچہ کی وجہ سے مزید صحت خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں حمل چار ماہ کے ہونے سے قبل اسقاط کرنا جائز ہوتا ہے، اگر حمل چار ماہ سے زائد کا ہو تو کسی صورت اسقاط کرنا جائز نہیں ہوتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ عذر کے پیشِ نظر حمل ساقط کروایا تھا اور حمل چار ماہ سے کم تھا تو  امید ہے کہ عند اللہ مؤاخذہ نہ ہو گا اور اگر ایسا  کوئی شدید عذر نہیں تھا اور حمل ساقط کروا دیا تو ایسی صورت میں توبہ کرنا ضروری ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة. (قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم".

(کتاب النکاح، مطلب فی حکم العزل(3/ 175) ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں