بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

اہل تشیع کی عبادت گاہ جانے والے شخص کی اقتداء میں نماز کا حکم


سوال

ہماری مسجد کے  ایک حافظ صاحب ہیں ، وہ اہل تشیع کے بچوں کو امام بارگاہ جا کر قران پاک پڑھاتے ہیں اور ان کے امام بارگاہ میں تلاوت بھی کرتے ہیں ، اس کے بعد وہ ہماری جامع مسجد کے اندر اذان بھی  دیتے ہیں اور جماعت بھی کرواتے ہیں،  لہذا کیا ایسے شخص کے پیچھے جو اہل تشیع کے بچوں کو پڑھا رہا ہو اور ان کے امام باڑا میں قران پڑھتا ہو،نماز باجماعت ادا کرنا کیسا ہے۔ ان  کے پیچھے نماز جو باجماعت ادا کی جائے کیا وہ ادا ہو جائے گی،  یا دوبارہ پڑھنی پڑے گی ؟اس کے متعلق قرآن و سنت  میں کیا احکام ہیں  ؟

 

جواب

مذکورہ شخص اگر اہل سنت والجماعت کے  عقائد کا متبع ہو  تو ایسے شخص کی اقتداء میں  نماز پڑھنا جائز ہے ، البتہ اہل تشیع کی عبادت گاہ جانا، چاہے جس نیت سے بھی ہو  ، اس سے ان کے عقائد کی طرف میلان اور فساد عقیدہ کا اندیشہ ہے ، لہذا  مذکورہ شخص کو حکمت و بصیرت کے ساتھ وہاں جانے سے  منع کردینا چاہییے۔ 

رد المحتار میں ہے:

"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (‌الأعلم ‌بأحكام ‌الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات ....(قوله تقديما) أي على من حضر معه (قوله بل نصبا) أي للإمام الراتب (قوله بأحكام الصلاة فقط) أي وإن كان غير متبحر في بقية العلوم، وهو أولى من المتبحر، كذا في زاد الفقير عن شرح الإرشاد (قوله بشرط اجتنابه إلخ) كذا في الدراية عن المجتبى. وعبارة الكافي وغيره: الأعلم بالسنة أولى، إلا أن يطعن عليه في دينه لأن الناس لا يرغبون في الاقتداء به...(قوله أي الأكثر اتقاء للشبهات) الشبهة: ما اشتبه حله وحرمته، ويلزم من الورع التقوى بلا عكس. والزهد: ترك شيء من الحلال خوف الوقوع في الشبهة، فهو أخص من الورع، وليس في السنة ذكر الورع، بل الهجرة عن الوطن. فلما نسخت أريد بها هجرة المعاصي بالورع، فلا تجب هجرة إلا على من أسلم في دار الحرب، كما في المعراج ط."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 1، ص: 557، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"الأولى بالإمامة أعلمهم بأحكام الصلاة. هكذا في المضمرات وهو الظاهر. هكذا في البحر الرائق هذا إذا علم من القراءة قدر ما تقوم به سنة القراءة هكذا في التبيين ولم يطعن في دينه. كذا في الكفاية وهكذا في النهايةويجتنب الفواحش الظاهرة."

(کتاب الصلاة، باب في الإمامة،‌‌ الفصل الثاني في بيان من هو أحق بالإمامة، ج: 1، ص: 83، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144611101684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں