بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگرمیں یہ پیسے لوں تو یہ میرے اوپر حرام کہنے کاحکم اور شوہرکا یہ کہنا کہ اگر تم نے یہ پیسے دوبارہ لیے توتم میری بیوی نہیں ہوگی کاحکم


سوال

میرے سابقہ شوہر (جوکہ انتقال کر گیاہے) کے بیٹے نے مجھے پیسے دے کر واپس لیے، اور ہر دفعہ ایسا ہی کرتا ہے کہ پیسے  دیتاہے اور پھر واپس لیتا ہے،ایک مرتبہ میں نے کہا کہ اگر میں نے یہ پیسے دوبارہ لئےتو میرے اوپر یہ پیسے حرام ہونگے، اس کے بعد میرے دوسرے شوہر نے یہ کہا کہ اگر تم نےیہ پیسے لیے تو تم میری بیوی نہیں ہوگی،

تو اب پوچھنا یہ ہے کہ:

1:کیا اب مجھے یہ پیسے لینا جائز ہے؟

2:اور اگر میں پیسے لے لوں تو کیامجھ پر طلاق واقع ہوجائے گی؟

جواب

1:واضح رہے کہ کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنا ’’قسم‘‘  ہے, لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے مذکورہ الفاظ  "اگر میں نے یہ پیسے دوبارہ لیے تو میرے اوپر یہ پیسے حرام ہوں گے" سے قسم منعقد ہوگئی ،  پھر جب سائلہ  اس بچے سے پیسے لے گی   تو قسم ٹوٹ جائے گئی، اور قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہوگا۔

 قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے (یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم ) اور اگر ’’جَو‘‘  دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے۔ اس سال (2022ء - 1443ھ)  رمضان المبارک میں پونے دو کلو گندم کی قیمت 150روپے ہے،یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے، اور اگر  کوئی قسم اٹھانے والا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا، اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)

الدرالمختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

"(ومن حرم) أي على نفسه ... (شيئا) (ثم فعله) بأكل أو نفقة .. (كفر) ليمينه، لما تقرر أن تحريم الحلال يمين".

(ج:3،ص:729،ط:سعید)

وفیه ایضاً:

"(وكفارته) هذه إضافة للشرط لأن السبب عندنا الحنث (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) كما مر في الظهار (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام".

(ج:3،ص:725-726،ط:سعید)

2:صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شو ہر نے  جو یہ کہا کہ "اگر تم نے یہ پیسے لیے تو تم میری بیوی نہیں ہوگی" اس سے اگر اس کی نیت طلاق دینے کی تھی تو   اس بچے سے پیسے لینے سے  سائلہ پر ایک طلاق بائن واقع ہوگی، اور اگر طلاق کی نیت نہیں تھی تو کچھ بھی واقع نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال ما أنت لي بامرأة أو لست لك بزوج ونوى الطلاق يقع عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى ".

(الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق،ج:1،ص:375،ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100735

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں