بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر میں نے کسی دوسری لڑکی سے بات کی تو تو مجھ پر حرام ہے، کہنے کا حکم


سوال

اگر کسی شحص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر میں نے کسی دوسری لڑکی سے بات کی تو تو مجھ پر حرام ہے ۔ تو اس صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ لفظ ’’حرام‘‘ طلاق کے بارے میں عرف کے اعتبار سے طلاق کا صریح لفظ بن چکا ہے،یعنی اس لفظ کے استعمال سے بغیر نیت کے بھی طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے، لہذا اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ جملہ بولتا ہے: "   اگر میں نے کسی دوسری لڑکی سے بات کی تو تو مجھ پر حرام ہے "  تو اس کی نیت کے بغیر بھی  اُس کی بیوی کی طلاق شوہر کے دوسری لڑکی سے بات کرنے پر معلق ہو گئی، اب اگر شوہر کسی  دوسری لڑکی سے بات کرے گا تو اُس کی بیوی  کو طلاق واقع ہو جائے گی، نکاح ختم ہو جائے گا  اور  دوبارہ ساتھ  رہنے کے لیے از سرِ نو گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ضروری ہو گا، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاق کا اختیار ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252):

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

 (قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحاً لا كنايةً، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق لايعرفون من صيغ الطلاق غيره ولايحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں