بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر فجر کی دوسری رکعت کے دوران طلوع آفتاب ہوجائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟


سوال

میں نے اخبار میں ایک حدیث شریف پڑھی ھے کہ" جس نے طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت فجر کی پڑھ لی اس نے فجر کی نماز پالی "، اس کا کیا مطلب ہے ؟اگر دوسری رکعت کے دوران طلوع آفتاب کا وقت شروع ہو گیا تو نماز فاسد ہو گی یا نہیں؟

جواب

سائل نے جس روایت کا ذکر کیا ہے ،یہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے ، "عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ‌أدرك ‌من ‌الصبح ‌ركعة ‌قبل ‌أن ‌تطلع ‌الشمس، فقد أدرك الصبح۔۔۔۔۔۔الخ"، لیکن واضح رہے کہ کتب احادیث میں ، مذکورہ روایت کے تعارض میں آنے والی احادیث (جن میں تین اوقات میں نماز پڑھنے کی صریح ممانعت آئی ہے،جس میں سے ایک وقت طلوع آفتاب کا بھی ہے)بھی موجود ہے،اس لیے فقہاء کرام میں سے بعض کے نزدیک اس وقت نماز جائز ہے،لیکن احناف  کے نزدیک  جن احادیث میں نہی وارد ہوئی ہے،وہ راجح  ہیں،لہذا احناف کے نزدیک ان اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص طلوعِ آفتاب سے پہلے نماز شروع کرے، اور درمیان میں سورج طلوع ہوجائے، تو حنفیہ کے اصول کے مطابق (جیساکہ متقدمین سے منقول ہے) نماز  باطل ہوجائے گی۔

البتہ متاخرین احناف میں سے قریب زمانے کے بعض فقہاءِ کرام (جن میں علامہ شامی رحمہ اللہ اور سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ بھی شامل ہیں) نے عوام الناس کے دینی مسائل سے جہل اور ناواقفیت کی وجہ سے اس وقت نماز ادا کرنے والے عامی شخص کو نماز پڑھنے سے روکنے سے منع کیا ہے کہ مبادا مسئلہ سمجھنے کے بجائے وہ نماز ہی ترک نہ کردے، اس لیے اگر کوئی عامی شخص ایسے وقت نماز شروع کردے کہ فجر کا وقت ختم ہونے والا ہو، اور غالب یہ ہو کہ نماز کے دوران فجر کا وقت ختم ہوجائے گا، تو اسے روکنا نہیں چاہیے، نرمی کے ساتھ معقول انداز میں مسئلہ سمجھادینا چاہیے، اگر وہ سمجھ جائے تو بہتر ورنہ اسے نماز کے اعادے کا نہ کہا جائے، کیوں کہ بہرحال بعض ائمہ مجتہدین کے مطابق اس کی نماز ادا ہوجاتی ہے، البتہ اسے عادت بنانے کی اجازت نہیں ہے، نہ ہی اس کی ترغیب دی جائے گی، یہی راہِ اعتدال اور حکمت کا تقاضا بھی ہے؛ لہٰذا مساجد میں نماز باجماعت کا اہتمام ایسے وقت میں کیا جائے کہ اگر بالفرض کسی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے وضو کرکے سنت کے مطابق سنتیں اور فرض نماز ادا کی جاسکے، نیز مسئلہ بھی یہی بتایا جائے کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز ادا کی جائے، اگر نماز کے دوران سورج طلوع ہوگیا تو نماز باطل ہوجائے گی، کیوں کہ صحیح احادیث میں اس وقت نماز کی ممانعت منقول ہے اور یہ روایات فقہاءِ احناف کے ہاں راجح ہیں، اور ایسی نماز کا اعادہ کیا جائے، اور اگر نماز شروع نہ کی ہو اور اس وقت سورج طلوع ہونے لگے تو نماز کو مؤخر کرے، عین طلوع کے وقت نماز شروع کرنا سب ائمہ کے نزدیک منع ہے، چناں چہ جب اشراق کا وقت ہوجائے تب فجر کی نماز قضا پڑھے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: بخلاف الفجر إلخ) أي ‌فإنه ‌لا ‌يؤدي ‌فجر ‌يومه ‌وقت ‌الطلوع؛ لأن وقت الفجر كله كامل فوجبت كاملة، فتبطل بطرو الطلوع الذي هو وقت فساد.

قال في البحر: فإن قيل: روى الجماعة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «من أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدركها، ومن أدرك ركعة من الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح» " أجيب بأن التعارض لما وقع بينه وبين النهي عن الصلاة في الأوقات الثلاثة رجعنا إلى القياس كما هو حكم التعارض، فرجحنا حكم هذا الحديث في صلاة العصر وحكم النهي في صلاة الفجر، كذا في شرح النقاية."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:373، ط:مصطفي البابي الحلبي)

مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ مع سوال و جواب نقل کیا جاتاہے:

سوال: کوئی شخص فجر کی نماز پڑھنا چاہتاہے جب کہ طلوعِ آفتاب میں صرف ایک منٹ باقی ہے، کیا وہ نماز پڑھنا شروع کردے یا طلوعِ آفتاب کے بعد مکروہ وقت کے ختم ہونے تک توقف کرے؟ نیز بخاری شریف میں صفحہ نمبر 28 پر امام بخاری نے مستقل اسی مسئلہ پر باب باندھا ہے، اور اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں: وعن أبي هریرة أن رسول الله صلى الله علیه وسلم قال: من أدرك من الصبح ركعةً قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح۔۔۔ الخ  کا کیا جواب ہے؟ 

جواب: اگر یہ شخص عوام میں سے ہے تو اس کو طلوع کے وقت نماز پڑھنے سے اس وقت نہ روکا جائے، مبادا وہ نماز کو ترک کردے۔ دوم یہ کہ بعض ائمہ کے نزدیک اس وقت بھی نماز جائز ہے، اس لیے نماز کا پڑھنا ترک کرنے سے بہتر ہے، کما قال فی الدر المختار۔

البتہ اس کو عادت نہ بنایا جائے، ویسے حدیث میں طلوع کے وقت نماز پڑھنے کو مکروہ فرمایا گیا ہے، اور فقہائے حنفیہ نے مکروہِ تحریمی فرمایا ہے، آپ نے جو حدیث نقل کی ہے، اس کے تعارض میں آنے والی احادیث آپ نے ذکر نہیں کی ہیں، جن میں تین اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے۔ اس لیے حنفیہ کے نزدیک نہی کی روایات کو راجح کہا گیا ہے۔ اور اس حدیث کے متعدد جوابات ہیں۔

کتبہ: ولی حسن ٹونکی

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501102077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں