بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر بیٹا صاحبِ نصاب ہو تو والد زکوۃ وصول کر سکتا ہے؟


سوال

ایک آدمی  کے بیٹے  کے پاس اپنی ملکیت میں  150000 روپیہ ہے،  لیکن باپ کے پاس کوئی نقد رقم نہیں ہے، کیا باپ زکات لے سکتا ہے؟ کھانا پینا رہن سہن ساتھ ہے، اور بیٹا اسی رقم (150000) سے گھر کا خرچہ کرتا ہے، اگر باپ کے پاس کوئی تھوڑی بہت نقد آئے تو وہ اپنے  لیے مخصوص ضروریات پوری کرتا ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر  مذکورہ شخص کی ملکیت میں    اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ   ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔

بیٹے  کا  صاحبِ نصاب ہونا والد کے مستحقِ زکاۃ  ہونے اور   زکاۃ وصول کرنے کے لیے مانع نہیں ہے۔

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

" لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي." (1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں