بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر ایامِ حیض میں عادت مکمل ہونے سے پہلے حیض کا خون آنا بند ہوجائے تو عورت کے لیے نماز روزہ سے متعلق کیا حکم ہے؟


سوال

اگر ماہواری کا خون پانچویں روز آنا بند ہو جاۓ، تو کیا سات روز سے پہلے پاک ہو کر نماز پڑھی جاسکتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کی مراد یہ ہے کہ  ایام حیض میں سائلہ کی عادت(سات دِن) مکمل ہونے سے پہلے (پانچ دِن ) پر  حیض آنا بند ہوجائے ،   تو اس صورت میں سائلہ کے لیے حکم یہ ہے کہ  احتیاطاً  اس پر روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا لازم ہے، البتہ نماز کو  آخری وقت تک مؤخر کرنا واجب ہوگا،  نماز کے آخری وقت میں  بھی اگر بالکل خون بند  ہو، تو اس پر غسل کرکے نماز پڑھنا لازم ہوگا،  لیکن فی الحال سائلہ کا اپنے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے، پھر اگر عادت کےایام (مثلاً سات دِن) میں دوبارہ خون کا دھبہ نظر  آجائے، تو یہ پورا عرصہ حیض کا شمار ہوگا۔

اگر  سات دِن کی عادت ہونے کی وجہ سے  پہلے وقتی طور پر خون بند ہونے پر نماز ادا نہیں کی اور بعد میں دوبارہ خون آگیا تو اب اس نماز کی قضا لازم نہیں ہوگی، کیوں کہ یہ پورا عرصہ ماہواری کا شمار ہوگا۔

اور یہ احتیاطاً  نماز، روزے کا حکم اس لیے ہے کہ اگر  دوبارہ (ابتدا  سے  خون آنے سے) دس دن کی مدت میں  خون نہ آئے  تو یہ زمانہ پاکی کا ہوگا، اور پاکی کی حالت میں نماز اور روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لأكثره) بلا غسل وجوباً بل ندباً. (وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطاً؛ وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه (أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب (والتحريمة) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها.

 (قوله: إذا انقطع حيضها لأكثره) مثله النفاس، وحل الوطء بعد الأكثر ليس بمتوقف على انقطاع الدم صرح به في العناية والنهاية وغيرهما، وإنما ذكره ليبني عليه ما بعده قال ط: ويؤخذ منه جواز الوطء حال نزول دم الاستحاضة اهـ وقدمنا عن البحر أنه يجوز الاستمتاع بما بين السرة والركبة بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دماً. اهـ وهذا في الحائض، فيدل على جواز وطء المستحاضة وإن تلطخ دماً وسيأتي ما يؤيده فافهم (قوله: وجوباً) منصوب بعامل محذوف أي بلا غسل يجب وجوباً، ومثله قوله: بل ندباً (قوله: بل ندباً) ؛ لأن قراءة {حتى يطهرن} [البقرة: 222] بالتشديد تقتضي حرمة الوطء إلى غاية الاغتسال فحملناها على ما إذا كان أيامها أقل من عشرة دفعاً للتعارض بين القراءتين، فظاهره يورث شبهة، فلهذا لايستحب، نوح عن الكافي.

(قوله: لدون أقله) أي أقل الحيض وهو ثلاثة أيام (قوله: في آخر الوقت) أي وجوباً، بركوي، والمراد آخر الوقت المستحب دون المكروه كما هو ظاهر سياق كلام الدرر وصدر الشريعة. قال ط: وأهمل الشارح حكم الجماع، ويظهر عدم حله بدليل مسألة الانقطاع على الأقل وهو دون العادة.

قلت: قد يفرق بين تحقق الحيض وعدمه، وانظر ما نذكره قبيل قوله: والنفاس لأم التوأمين (قوله: وإن ولأقله) اللام بمعنى بعد ط (قوله: لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب، بحر (قوله: وتغتسل وتصلي) أي في آخر الوقت المستحب، وتأخيره إليه واجب هنا أما في صورة الانقطاع لتمام العادة فإنه مستحب، كما في النهاية والبدائع وغيرهما (قوله: احتياطاً) علة للأفعال الثلاثة".

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:294، ط:مصطفي البابي الحلبي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں