بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسے کپڑوں میں نماز پڑھنا جس پر مذی / ودی لگی ہو


سوال

اگر کپڑوں پر  منی کے علاوہ کوئی اور داغ  لگ  جائے( عضو سے جو گاڑھے قطرے نکلتے ہیں )اور دھونا بھول جاۓ تو  نماز ہو جاتی ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ منی کے علاوہ عضو سے جو قطرے آتے ہیں ،وہ یا تو’’ مذی ‘‘کے ہوتے ہیں یا ’’ودی ‘‘کے،اور  ان کا حکم یہ ہے کہ یہ دونوں  نجاست غلیظہ ہیں ،   ان کے  نکلنے کی صورت میں وضو ٹوٹ جاتاہے   غسل فرض نہیں ہوتا،اور  کپڑوں میں لگ جائے  تو کپڑے ناپاک ہوجائیں گے،ان کو پاک کرنا ضروری ہوگا  ،البتہ  اگر کسی نے  بغیر پاک کیے اسی کپڑے میں نماز پڑھ لی  تو ایک درہم (ہاتھ کی ہتھیلی کے گڑھے:5.94 مربع سینٹی میٹر)سے کم مقدارمیں کپڑے پرلگی ہوتو وہ معاف ہے ،یعنی نمازکراہت کے ساتھ ہوجائے گی اوراگرایک درہم کی مقدارسےزائدہو تو ایسے کپڑے میں نمازنہیں ہوگی،اعادہ ضروری ہے ،اگرچہ وہ دھونا بھول گیا ہو  ۔

مراقي الفلاح مع الطحطاوي میں ہے:

"المني" وهو ماء أبيض ثخين ينكسر الذكر بخروجه يشبه رائحة الطلع ومني المرأة رقيق أصفر. وفي الطحطاوي علي المراقي: قوله: "يشبه رائحة الطلع" أي عند خروجه ورائحة البيض عند يبسه".

( "فصل ما يوجب" أي يلزم "الاغتسال، / ٩٦)

مراقي الفلاح میں ہے:

"منها مذي.... وهو ماء أبيض رقيق يخرج عند شهوة لا بشهوة ولا دفق ولا يعقبه فتور وربما لا يحس بخروجه وهو أغلب في النساء من الرجال.ويسمى في جانب النساء قذى بفتح القاف والدال المعجمة. "و" منها "ودي" بإسكان الدال المهملة وتخفيف الياء وهو ماء أبيض كدر ثخين لا رائحة له يعقب البول وقد يسبقه أجمع العلماء على أنه لايجب الغسل بخروج المذي والودي".

(حاشية الطحطاوی علی المراقي، فصل: عشرة أشياء لايغتسل، ١ / ١٠٠ - ١٠١)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لَا) عِنْدَ (مَذْيٍ أَوْ وَدْيٍ) بَلْ الْوُضُوءُ مِنْهُ وَمِنْ الْبَوْلِ جَمِيعًا عَلَى الظَّاهِرِ".

(١/ ١٦٥،ط: سعيد) 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"( وعفا ) الشارع ( عن قدر درهم ) وإن كره تحريماً، فيجب غسله وما دونه تنزيهاً فيسن، وفوقه مبطل ( وهو مثقال ) عشرون قيراطاً ( في ) نجس ( كثيف ) له جرم ( وعرض مقعر الكف ) وهو داخل مفاصل أصابع اليد ( في رقيق من مغلظة كعذرة ) آدمي وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ".

(1/316،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں