بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالت سے خلع لینے کے بعد صلح ہونے کی صورت میں میاں بیوی کا ساتھ رہنے کا حکم


سوال

میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا،جس کی وجہ سے شوہر نے بیوی کو چھری سے مارا ،بعد میں اس کے خلاف دفعہ 324 کا کیس ہوا،بیوی نے جاکر خلع لے لی،پھر ان کے درمیان صلح ہوگئی ،میاں بیوی اب ساتھ رہنا چاہتے ہیں ،تو شرعی لحاظ سے کیا وہ خلع تسلیم کی جائےگی؟سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ایسا خلع جو شوہر کی اجازت کے بغیر ہو وہ تسلیم نہیں کیا جائےگا،اور وہ بغیرنکاح اور حلالہ آپس میں رہ سکتے ہیں ،تو اس کے بارےمیں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ خلع دیگر عقود کی طرح ایک عقد ہے ،جس میں دونوں فریقین کی رضامندی ضروری ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں بیوی نے جو خلع  لیا تھا،اگر اس میں شوہر کی رضامندی شامل تھی،تو وہ خلع معتبر  ہوگا،اور اس کی وجہ سے ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی، اب اگر دونوں میاں بیوی صلح کے بعد ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں ،تو  نئےمہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب وقبول کے ساتھ تجدیدِ   نکاح کرنا ضروری ہے، نکاح کے بغیر دونوں کا میاں بیوی کی طرح رہنا جائز نہیں۔

اور اگر شوہر نے اس خلع پر رضامندی ظاہر نہیں کی تھی ،اور عورت نے عدالت سے جاکر خلع لے  لیاتو وہ معتبر نہیں ہوگا،فریقین بدستور میاں بیوی رہیں گے،ساتھ رہنے کے لیے نئے  نکاح کی ضرورت نہیں۔باقی سائل نے سپریم کورٹ کے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ ہمارے  علم میں نہیں ہے،  لیکن جو شرعی حکم تھا وہ ذکر کردیا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول".

(كتاب الطلاق، فصل وأما الذي يرجع إلى المرأة، ج:3، ص:145، ط:دار الكتاب العربي)

مجمع الانہر میں ہے:

"(والواقع به) أي: بالخلع (وبالطلاق على مال) بأن يقول الزوج: طلقتك أو أنت طالق على مال كذا أو تقول المرأة: طلقني على كذا، ويقول: هو طلقتك عليه (بائن)".

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:1، ص:759، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة".

(كتاب الطلاق،ج:1، ص472، ط:رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101536

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں