بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ابارشن ( اسقاطِ حمل ) کرنے سے عدت کا حکم


سوال

ایک عورت  حاملہ تھی  اس کا  خاوند وفات پا گیا، وفات  کے بعد اس عورت نے ابارشن کروادیا یعنی اسقاط حمل کروادیا، اب اس کی  عدت کا کیا حکم ہے ؟  کیا اسقاطِ  حمل سے عدت پوری ہوگئی ،جیسے حاملہ کی عدت وضع حمل سے پوری ہوتی ہے ؟

جواب

 واضح رہے کہ  ابارشن( اسقاطِ حمل ) کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو   اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق کرتا ہو  تو ان  جیسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح  پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوتی ہے، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ  حمل جائز نہیں ہوتا، اور   شدید عذر نہ ہو تو پھر  حمل کو ساقط کرنا   کسی بھی وقت  جائز نہیں ہے، بلکہ بڑا گناہ ہے۔ چنانچہ  مذکورہ عورت نے اگر ان  اعذار کے بغیر اسقاطِ حمل کروایا ہے تو  بہت ہی گناہ کا کام کیا ہے؛  لہٰذا سب سے پہلے تو خوب توبہ و استغفار کرے  اور آئندہ اس قسم کا عمل نہ کرنے کا عزم کرے ۔

پھر اسقاطِ حمل کی صورت میں عدت کی تفصیل یہ ہے کہ  اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تواس حمل کو  ساقط کرنے  کے بعد  عدت گزر جاۓ  گی، لیکن  اگر بچے کے اعضاء  میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی  اس حمل کے ضائع کرنے سے  عدت کے گزرنے کا حکم نہیں لگایا جاۓ گا ۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع کیا جاۓ ، اس کے بعد تو عدت گزرجانے کا حکم لگے  گا، لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے پہلے   ضائع کیا گیا ہے  تو اس حمل کے ضائع کرنے سے  عورت کی عدت نہیں گزرے گی ، بلکہ اسے وفات کی عدت (چار ماہ دس دن) پوری کرنی ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں