بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آشوب چشم کی وجہ سے نکلنے والے آنسوؤں کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ہذا کے کہ :

فی الحال آشوب چشم کی وباء چلی ہوئی ہے، ایک جگہ پڑھنے میں آیا ہے کہ اس بیماری میں آنکھ سے نکلنے والا پانی ناپاک ہوتا ہے اور اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

جامعہ کی ویب سائٹ پر موجود فتوی سے آج کل کی بیماری سے مطلقاً وضو ٹوٹنا سمجھ آرہا ہے جب کہ موجودہ بیماری میں جو پانی نکل رہا ہے وہ بالکل عام آنسو کی طرح ہے۔

 براہ کرم اس مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ تحریر فرمائیں عین نوازش ہوگی۔

جواب

آشوبِ چشم کی وجہ سے آنکھ سےنکلنے والے پانی میں مندرجہ ذیل  تفصیل ہے:

1۔ اگر آنکھوں سے نکلنے والا پانی صاف ہو، متغیر نہ ہو، مثلًا اس میں سرخی یا پیپ نہ ہو اور آنکھ میں درد نہ ہو تو یہ پانی پاک ہے، اس کے نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔

2۔  اگر آنکھوں سے نکلنے والا پانی صاف ہو، متغیر نہ ہو اور آنکھ میں درد ہو تو یہ پانی ناپاک ہے، اس کے نکلنے سے وضو  ٹوٹ جائے گا۔

3۔  اگر پانی متغیر ہو تو یہ پانی ناپاک ہوگا اور اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"ولو كان في عينيه رمد يسيل دمعها يؤمر بالوضوء لكل وقت لاحتمال كونه صديدا وفي فتح القدير وأقول: هذا التعليل يقتضي أنه أمر استحباب فإن الشك والاحتمال في كونه ناقضا لا يوجب الحكم بالنقض إذ اليقين لا يزول بالشك نعم إذا علم من طريق غلبة الظن بإخبار الأطباء أو علامات تغلب على ظن المبتلى يجب اهـ، و هو حسن لكن صرح في السراج الوهاج بأنه صاحب عذر فكان الأمر للإيجاب."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ١ / ٢٢٧، ط: دار الكتاب الإسلامي)

تبيين الحقائق  شرح  کنز الدقائق  میں ہے:

"والقيح الخارج من الأذن أو الصديد إن كان بدون الوجع لا ينقض، ومع الوجع ينقض؛ لأنه دليل الجرح روي ذلك عن الحلواني اهـ.

وفيه نظر بل الظاهرإذاكانالخارجقيحا أو صديدا ينقض سواء كان مع وجع أو بدونه؛ لأنهما لا يخرجان إلا عن علة نعم هذا التفصيل حسن فيما إذا كان الخارج ماء ليس غير وفيه أيضا، ولو كان في عينيه رمد أو عمش يسيل منهما الدموع قالوا يؤمر بالوضوء لوقت كل صلاة لاحتمال أن يكون صديدا أو قيحا اهـ"

وهذا التعليل يقتضي أنه أمر استحباب، فإن الشك والاحتمال في كونه ناقضا لا يوجب الحكم بالنقض إذ اليقين لا يزول بالشك نعم إذا علم من طريق غلبة الظن بإخبار الأطباء أو بعلامات تغلب على ظن المبتلى يجب."

(كتاب الطهارة، باب الحيض،١ / ٣٤، ط: دار الكتاب الإسلامي )

فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:

"آنکھ دکھنے کی وجہ سے اگر پانی آنکھ سے بہے

(سوال) آنکھ دکھتی ہوئی میں جوڈھیڈ آجاتا ہےتو زید کہتا ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے،کیوں کہ یہ خون سے بنتا ہے زید کا قول صحیح ہے یا نہیں؟

(جواب) آنکھ دکھنے میں جو پانی نکلتا ہے پاک ہے، اگر چہ بعض نے ناپاک کہہ دیا ہے، لیکن تحقیق کے خلاف ہے۔" فقط واللہ اعلم

(کتاب الطہارت،١ / ٢٩٥ ، ط:دار الاشاعت)

فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:

"آنکھ سے پانی گرنا قض وضو ہے یا نہیں ؟

(سوال (۲۲) عام کتب فقہ میں مرقوم ہے کہ آنکھ اٹھی ہو یا اس میں کوئی ضرب لگنے سے مٹی وغیرہ پڑ جانے سے یا آنکھ میں درد پیدا ہو جانے سے یعنی ہمہ  صورتوں میں جب درد پیدا ہونے سے  پانی جاوے گا(پانی نکلے گا) تو وہ نجس ہے اور ناقض وضو  ہے۔ اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی  قدس سرہ کا فتوی فتاوی رشید یہ حصہ دوم میں ص:27 پر عدم  ناقض وضو  مرقوم ہے،  آنکھ د کھنے میں جو پانی نکلتا ہے پاک ہے ،اگر چہ بعض نے ناپاک کہہ دیا، لیکن خلاف تحقیق ہے۔

(جواب) آنکھ د کھنے میں جو پانی  نکلتا ہے اس میں تحقیقی قول وہی ہے جو حضرت مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ نے ارقام فرمایا ہے، اس مسئلہ کی بحث در مختار و شامی میں   ج:1 ص:137 میں  اس طرح کی ہے کہ صاحب در مختار نے یہ لکھا ہے کہ وہ  پانی نجس اور ناقض وضو ہے عبارت اس کی یہ ہےفدمع من بعینہ رمد او عمش  ناقص الخ ۔ اس پر علامہ شامی نے امام ابن ہمام رحمتہ اللہ علیہ کی تحقیق  یہ نقل کی ہے کہ ایسی صورت میں وضوء کا امرا ستحباب  ہے وجو با نہیں ہے ، جیسا کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ وہ پانی ناقض وضو نہیں  ہے۔ عبارت شامی کی یہ ہے :  قولہ ناقض الخ قال في المنية وعن محمد رحمه الله إذا كان في عينه رمد وتسيل الدموع منها آمره بالوضوء  لوقت كل صلاة لأني أخاف أن يكون ما يسيل صديدا فيكون صاحب العذر،اس عبارت سے معلوم ہوا کہ امام ابن ہمام رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ وہ ناقض وضو نہیں اور یہ موافق قواعد شرعیہ کے ہے ہیں، یہی  راجح ہے۔ فقط ۔"

(کتاب الطہارت،١ / ١١٠، ط:دار الاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"آنکھ کے پانی کا حکم

(سوال ۵۷) بہشتی زیور حصہ اول نو اقض وضو  کے ذیل میں لکھا ہے کہ اگر آ نکھیں اٹھی ہوں اور کھنکتی ہوں تو پانی بہنے اور آنسو نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور اگر آ نکھیں نہ آئی ہوں ، اس میں کچھ کھٹک ہو تو آ نسو نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، آگے چل کر بطور قاعدہ کلیہ درج ہے کہ جس چیز کے لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے وہ چیز نجس ہوتی ہے، ایسی صورت میں جب بچوں کی آنکھیں دکھتی ہیں اور ان کی آنکھوں کا پانی اکثر ماں وغیرہ کے کپڑوں کو تر کر دیتا ہے، کیا اس کپڑے سے بغیرھوائے نماز جائز ہے یا نہیں؟

(جواب) اس مسئلہ میں ایک یہ ہے جو بہشتی زیور میں منقول ہے اور قاعدہ مذکورہ بھی صحیح ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ آنکھیں دکھنے والے کی آنکھ سے جو پانی نکلے وہ ناقض وضو نہیں ہے،  اور اس صورت میں وہ نجس بھی نہ ہوگا، حسب قاعدہ مذکورہ شامی میں مزید سے منقول ہے وعن محمد رحمة الله عليه إذا كان في عينيه رمدا و تسيل الدموع منها آمره بالوصو لوقت كل صلوة لأني أخاف أن يكون ما يسيل منها صديدا فيكون صاحب العذر قال في الفتح وهذا التعليل يقتضى أنه أمر استحباب فإن الشك و الاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض إذ اليقين لا يزول بالشك الخ  شامی،  پس اس تحقیق کی بناء پر وہ  پانی جو دھکتی  آنکھ سے نکلے جب تک متغیر نہ ہو مثلا اس میں سرخی و غیرہ  نہ ہو بلکہ صاف پانی ہوتو وہ ناقض وضو نہ ہوگا اور نجس بھی نہ ہوگا۔ فقط۔"

(کتاب الطہارت، ١ / ١١٧، ط:دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"ناک اور آنکھ سے آنے والے پانی کا حکم

(سوال) زکام کے وقت میں جو پانی ناک سے جاری ہوتا ہے ابتداء سفید ہو تا ہے بعد میں زرد اور بدبو دار ہو جاتا ہے یا آنکھوں میں درد ہونے کی صورت میں آنسو آتے ہیں یہ ناقض وضو ہیں یا نہیں ؟

(جواب ٣٢٤) ناک سے آنے والا پانی جب تک متغیر اللون والر یح  نہ ہو،  اسی طرح آنکھ سے آنے والے آنسو جب تک پانی کی طرح صاف ہوں نواقض وضو میں نہیں ہیں ۔"

(کتاب الطہارت،٢ / ٣١٥ ، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502101191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں