بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آڑھتیوں کا مالک اور خریدار دونوں سے کمیشن لینا


سوال

 سبزی منڈی کوٹ ادو کے آڑھتی صرف بائع سے 6 روپے فی سینکڑا کمیشن لیتے تھے، اور مشتری سے صرف دامی کے نام سے فی بوری یا فی پیٹی 10 روپے لیتے تھے، چاہے مشتری مال نقد لے یا ادھار۔ لیکن اب آڑھتیوں نے مل کر یہ طے کیا ہے کہ بائع سے کمیشن لینے کے ساتھ ساتھ اس مشتری سے بھی کمیشن لیں گے جو ادھار مال لے گا۔ یہ کمیشن 3 روپے فی سینکڑا ہوگا۔ مذکورہ بالا معاملے کی شرعی حیثیت کیا ہے، اور جانبین سے کمیشن لینا مذکورہ صورت میں جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو جواز کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دلال/ کمیشن ایجنٹ کی دو حیثیتیں ہیں، ایک تو یہ ہے  وہ ایسا کمیشن ایجنٹ ہو  جو صرف  خریدنے والے یا بیچنے والے کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کا وکیل بنتا ہے اور خود اس کی طرف سے عقد کرتا ہے، اس صورت میں وہ صرف اسی سے کمیشن لے سکتا ہے  جس کا وہ وکیل ہو، دوسرے سے نہیں لے سکتا،  کیوں کہ جب اس نے دوسرے فریق کی ترجمانی نہیں کی تو وہ اس کی طرف سے کمیشن لینے کا حق دار بھی نہیں ہوگا۔

اور  اس کی دوسری  حیثیت یہ ہے کہ وہ کسی کا وکیل نہ بنے، بلکہ دونوں جانب یعنی  بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی خدمات انجام دے اور دونوں کے  درمیان  رابطہ کرانے کے عمل کی اجرت لے اس صورت میں دونوں طرف سے کمیشن لینا جائز ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر آڑھتی مالک سے مال لے کر خود مالک کے لیے فروخت کرتے ہیں  تو آڑھتیوں کے لیے خریدنے والوں سے کمیشن لینا جائز نہیں ہے،  بلکہ وہ صرف  مالک ہی سے طے شدہ کمیشن لے سکتے ہیں، نیز اگر انہوں مالک کو قرض دیا ہو تو اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ان سے مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہی کمیشن کا معاملہ کریں، قرض کی وجہ سے اس سے زیادہ نفع لیں گے تو یہ بھی جائز نہیں ہوگا۔

اور اگر آڑھتی کا کام صرف خریدنے والے شخص اور مالک کے درمیان رابطہ کرانا ہو اور عقد خود مالک ہی کرتا ہے تو اب  وہ دونوں طرف سے کمیشن لے سکتے ہیں۔

مجمع الضمانات (1 / 54):

الدلال لو باع العين بنفسه بإذن مالكه ليس له أخذ الدلالة من المشتري إذ هو العاقد حقيقة وتجب الدلالة على البائع إذا قبل بأمر البائع ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف فتجب الدلالة على البائع أو على المشتري أو عليهما بحسب العرف.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 560):

وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1 / 247):

(سئل) في دلال سعى بين البائع والمشتري وباع المالك المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع فهل تكون على البائع؟

(الجواب) : نعم وفي فوائد صاحب المحيط الدلال إذا باع العين بنفسه ثم أراد أن يأخذ من المشتري الدلالة ليس له ذلك؛ لأنه هو العاقد حقيقة وتجب على البائع الدلالة؛ لأنه فعل بأمر البائع هكذا أجاب ثم قال ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يضاف إلى العرف إن كانت الدلالة على البائع فعليه وإن كانت على المشتري فعليه وإن كانت عليهما فعليهما عمادية من أحكام الدلال وما يتعلق به ومثله في الفصولين وشرح التنوير للعلائي من البيع.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں