بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ ﷺ کے بال مبارک دنیامیں موجود ہیں یانہیں


سوال

 حضور صلی اللّہ علیہ وسلم کے بال مبارک اس دنیا میں موجود ہیں؟ اگر ہیں توکیا وہ بڑھتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ حضور اقدسﷺ نے اپنے موئے مبارک اپنے اصحاب میں تقسیم فرمائے تھے،رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر یوم النحر میں منیٰ میں تشریف لاکر جمرہٴ عقبہ کی رمی کے بعد اونٹوں کی قربانی کی، اس کے بعد مشہور اور صحیح قول کے مطابق معمربن عبداللہ العدوی رضی اللہ عنہ سے اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، پھر موئے مبارک تقسیم فرمائے،اور  حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے انھیں بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے، پھر انھیں سے وہ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوئے، ممکن ہے کہ اسی طرح قرناً بعد قرنٍ اورنسلاً بعد نسلٍ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوتے ہوئے آج کے زمانے میں کسی کے پاس پہنچے ہوں، اور وہ اس کے پاس موجود ہوں۔

ترکی میں استنبول کے مشہور عجائب گھر توپ کاپے سرایے میں موجودتبرکات بشمول موئے مبارک کے متعلق شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم اپنے مشہور سفرنامہ ’’جہانِ دیدہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں آں حضرت صلى الله علیہ وسلم کی طرف منسوب تبرکات پائے جاتے ہیں، لیکن مشہور یہ ہے، کہ استنبول میں محفوظ یہ تبرکات زیادہ مستند ہیں، ان میں سرورِ دوعالم صلى الله علیہ وسلم کا جبہٴ مبارک، آپ کی دوتلواریں، آپ کا وہ جھنڈا جس کے بارے میں مشہور یہ ہے، کہ وہ غزوئہ بدر میں استعمال کیاگیا تھا، موئے مبارک، دندانِ مبارک، مقوقس شاہِ مصر کے نام آپ کا مکتوبِ گرامی اور آپ کی مہرِ مبارک شامل ہیں۔‘‘

(جہانِ دیدہ، ص:۳۳۸)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

سوال: یہ مشہور ہے، کہ اکثر بڑے شہروں میں اور دیہات میں حضور پُرنور صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں، کیا یہ درست ہے؟اور کیا اس کی تعظیم کی جائے؟

"الجواب: حدیث شریف سے ثابت ہے، کہ نبیٴ کریم علیہ الصلاة والسلام نے اپنے موئے مبارک صحابہٴ کرام کو تقسیم فرمائے تھے۔ ’’فتاویٰ ابن تیمیہ‘‘ میں ہے: فان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حَلَقَ رأسَہ، واعطیٰ نصفَہ لأبی طلحةَ ونصفَہ قَسَّمَہ بینَ الناسِ. (ص:۴۳، ج:۱) تو اگر کسی کے پاس ہو، تو تعجب کی بات نہیں۔ اگر اس کی صحیح اور قابل اعتماد سند ہو، تو اس کی تعظیم کی جائے، اگر سند نہ ہو اور مصنوعی ہونے کا بھی یقین نہیں، تو خاموشی اختیار کی جائے، نہ اس کی تصدیق کرے اور نہ جھٹلائے، نہ تعظیم کرے اورنہ اہانت کرے"۔

(فتاویٰ رحیمیہ، ص:۲۷۷، ج:۲، مکتبہ رحیمیہ )

البتہ  جب  بال  کٹے ہوئے ہوں  تو  بڑھتے ہیں  یا نہیں   اس بارے میں قرآن وحدیث میں  نہیں  ملا ۔

حدیث شریف میں ہے : 

"عن انس بن مالك؛ أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم رمٰي جمرةَ العقبةِ. ثم انصرفَ الٰی البُدن فَنَحَرَها والحجامُ جالسٌ، وقال بیدہ عن رأسِه، فحَلَقَ شِقَّه الأیمنَ. فقَسَّمه فِیْمَنْ یَلیه. ثم قال: أحلِقْ الشِّقَّ الاٰخَرَ. فقال: أینَ أبوطلحةَ؟ فأعطاہُ ایَّاہُ".

 (کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي الخ،947/2،مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه، القاهرة)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن انسٍ رضى الله عنه؛ أن رسولَ اللہ صلی اللہ علیه وسلم لما حَلَقَ رأسَه کان ابوطلحةَ اوّلُ من اَخَذَ من شعرِہ."

(کتاب الوضوء، باب الماء الذي یغسل به شعر الانسان،45/1،السلطانية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403101440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں