بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کاروبار کا حکم


سوال

کیا  اسلام میں آن لائن کام کرنا  جائز ہے یا  حرام؟ آج کل پاکستان میں  ٹریڈنگ کا کام بہت تیزی سے ہو رہا ہے؟ کیا اس سے جو  پرافٹ   حاصل  ہوتا ہے،   حلال  ہے یا حرام؟  

جواب

آن  لائن کاروبار  میں  اگر  "مبیع" (جو چیز فروخت  کی جارہی ہو) بیچنے  والے  کی ملکیت  میں نہیں ہے اور  وہ محض  اشتہار ،تصویر دکھلا کر  کسی کو  وہ  سامان  فروخت کرتا ہو  (یعنی  سودا کرتے وقت یوں کہے کہ "فلاں چیز  میں نے آپ کو اتنے میں بیچی"، وغیرہ) اور  بعد  میں وہ  سامان کسی اور دکان،اسٹور وغیرہ  سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں "مبیع" موجود  نہ  ہونے  کی وجہ  سے  جائز  نہیں  ہے؛  اس  لیے کہ جو  چیز  فروخت کرنا مقصود  ہو  وہ  بائع  کی ملکیت میں  ہونا شرعاً  ضروری  ہوتا  ہے۔

اس  کے  جواز  کی  صورتیں  درج  ذیل  ہیں:

1-  بائع مشتری سے یہ کہہ دے کہ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں ، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کر آپ کو  اتنی  قیمت میں  فروخت  کرسکتا ہوں،  یوں  بائع  اس  سامان  کو خرید  کر  اپنے  قبضہ  میں لے  کر  باقاعدہ  سودا  کرکے  مشتری کو  فروخت کرے تو  یہ  درست  ہے۔

2-  آن لائن کام کرنے والا فرد  یا کمپنی  ایک  فرد  (مشتری)  سے آرڈر  لے اور مطلوبہ  چیز کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے،  یعنی  بجائے  اشیاء  کی خرید و فروخت  کے  بروکری  کی اجرت مقرر کرکے  یہ معاملہ کرے۔

3-  اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی، البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب "مبیع"  خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔ تاہم ملحوظ رہے کہ "مبیع" اگر جان دار چیز ہے تو اس کی تصویر بنانے یا ارسال کرنے کی شرعًا اجازت نہیں ہوگی۔

اگر  مذکورہ جائز صورتوں میں سے کسی صورت کے مطابق کسی چیز کی خرید  و فروخت  ہوئی ہو تو اس کا جواز ظاہر ہے۔ اور  اگر ممنوعہ صورت کے مطابق سودا ہوا، تو ایسا سودا کینسل کرنے کا حکم ہے، البتہ اگر  مبیع خریدار کے قبضے میں آچکی  ہو اور  اس نے قیمت بھی ادا کردی ہو تو اب خریدار کی ملکیت  مبیع پر ثابت ہوجائے گی، آئندہ شرعی احکام کا لحاظ رکھ کر سودا کیا جائے ۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ  کرنسی، سونا اور  چاندی کی آن لائن خرید و فروخت شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ ان اشیاء کی بیع درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو اور مجلسِ عقد میں جانبین سے عوضین پر قبضہ پایا جائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201452

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں