بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آخری قعدے میں ایک سے زیادہ دعائیں پڑھنے کا حکم


سوال

  کیا نماز کے آخر میں درود کے بعد ایک سے زیادہ دعا مانگی جا سکتی ہے، جیسے "رب اجعلنی ۔۔۔" اور "اللھم حاسبنی ۔۔۔" ؟

جواب

آخری قعدے میں درود شریف پڑھنے کے بعد ایک سے زیادہ دعائیں مانگنا جائز ہے،  البتہ ایسی دعا پڑھنا سنت ہے جو قرآنِ کریم یا احادیث سے ثابت ہو (جیسا کہ سوال میں مذکورہ دونوں دعائیں قرآنِ مجید اور حدیث سے ثابت ہیں)، اگر کوئی ایسی دعا پڑھی جائے جو قرآن کریم اور احادیث سے ثابت نہ ہو اور عربی میں ہو تب بھی جائز ہے بشرطیکہ دعا ایسی چیز کی ہو جس کا اللہ کے علاوہ کسی اور سے طلب کرنا ممکن نہ ہو۔ اگرکوئی شخص  امام ہو تو اسے اس بات  کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ طویل دعاؤں کی وجہ سے  مقتدیوں کو گرانی نہ ہو۔

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: ودعا بما يشبه ألفاظ القرآن والسنة لا كلام الناس) أي بالدعاء الموجود في القرآن، ولم يردحقيقة المشابهة ؛ إذ القرآن معجز لا يشابهه شيء، ولكن أطلقها ؛ لإرادته نفس الدعاء ، لا قراء ة القرآن، مثل: ﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا ﴾ [البقرة: 286] ﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبِنَا ﴾ [آل عمران: 8] ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ ﴾ [نوح: 28] ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً﴾ [البقرة: 201] إلى آخر كل من الآيات، وقوله: والسنة، يجوز نصبه عطفاً على ألفاظ أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة، وهي الأدعية المأثورة، ومن أحسنها ما في صحيح مسلم: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال»، ويجوز جره عطفاً على القرآن أو ما أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة أو دعا بالسنة، وقد تقدم أن الدعاء آخرها سنة ؛ لحديث ابن مسعود: «ثم ليتخير أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فيدعو به»". (1/ 349)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں