بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1446ھ 07 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

آغاخانی کے ساتھ نکاح کاحکم


سوال

میری بھانجی نے کورٹ میں لو میرج کیاہےاور جس شخص سے نکاح کیاہے، وہ آغاخانی ہے اور لڑکی اہل سنت والجماعت سے منسلک ہے ،تو کیا ان دونوں کا نکاح شرعاً صحیح ہوا؟

جواب

  آغا خانی   فرقہ  کے عقائد ونظریات اہل سنت والجماعت کے عقائد و نظریات کے خلاف ہیں، جس کے سبب  کسی مسلمان کے لیے آغا خانی شخص سے نکاح کرنا جائز  نہیں ۔ لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی بھانجی نے    آغا خانی لڑکے  کے سے جو نکاح کیاہے وہ شرعاً منعقد نہیں ہوا۔ لہذا دونوں کا ساتھ رہنا حرام ہوگا، فی الفور علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہوگا،  اور جتنا عرصہ ساتھ رہے، اس پر توبہ، استغفار کرنا ضروری  ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"ومنها إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} [البقرة: 221] ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار} [البقرة: 221] لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراما، والنص وإن ورد»في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلا يجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لا يجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا} [النساء: 141] فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لا يجوز."

(كتاب النكاح ،فصل إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة، فصل إسلام الرجل إذا كانت المرأة، ج :2، ص :271، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں