بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چار تولہ سونے کی زکوۃ


سوال

 میری بیٹی کے پاس 4 تولہ سونا تھا جس میں سے3 تولہ  کسی کو قرض کے طور پر دیا ہوا ہے اس پر زکاۃ بنتی ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح  رہے  کہ سونے  کی زکوٰۃ  کا  نصاب  ساڑھے سات تولہ ہے۔ لہٰذا اگر چار تولہ سونے کے ساتھ  کوئی اورقابلِ زکوٰۃ  مال(چاندی، مالِ تجارت، نقد رقم) نہ ہوتو  اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔  لیکن اگر سونےکے ساتھ چاندی، مالِ تجارت یا رقم ہو،ایک قول کے مطابق  رقم کی مقدار چاندی کے نصاب کے چالیسویں حصے کے برابر ہو یعنی پانچ درہم، تو  ایسی صورت میں  سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا  بلکہ چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا،  لہٰذا چار تولہ سونا اور مذکورہ اشیاء میں سے کسی چیز   کی قیمت مجموعی اعتبار سے اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو ایسی صورت میں وہ صاحب نصاب شمار ہوگی اور قمری مہینوں کے اعتبار سے نصاب پر  سال گزرنے کے بعد اس کا چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ  واجب الادا ہوگا۔

صورتِ  مسئولہ  میں آپ کی بیٹی کے پاس اگر صرف یہ چار تولہ سونا (جس میں سے تین تولہ کسی کو بطور قرض دیا ہے)  ہو اس کے علاوہ کوئی اور قابلِ زکوۃ مال نہ ہوتو اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی ، اور اگر اس کے ساتھ کوئی قابلِ زکوۃ مال ہو مثلاً نقد رقم ، چاندی اور ان سب کو ملا کر اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو، اس پر سال بھی گزر گیا ہو  اور آپ کی بیٹی عاقلہ بالغہ  ہو تو اس زکوۃ  واجب ہو جائے گی، اور اگر آپ کی بیٹی  عاقلہ  بالغہ  نہ  ہو  یا اس  پر سال نہ گزرا ہو   تو اس پر زکوۃ لازم نہ ہوگی۔

 سنن أبی داود میں ہے:

"عَنْ عَلِيٍّ، - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِبَعْضِ أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَىْءٌ - يَعْنِي فِي الذَّهَبِ - حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ"‏.

(كتاب الزكاة، باب زكاة السائمة،100/2، المكتبة العصرية، بيروت)

 بدائع الصنائع  میں ہے:

"فأما ‌إذا ‌كان ‌له ‌الصنفان ‌جميعًا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابًا بأن كان له عشرة مثاقيل و مائة درهم؛ فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا.

و عند الشافعي لايضمّ أحدهما إلى الآخر بل يعتبر كمال النصاب من كل واحد منهما على حدة."

(كتاب الزكاة، فصل: مقدار الواجب في زكاة الذهب،344/2، ط: المكتبة التوفيقية، مصر)

فتاوى ہنديہ میں ہے:

"وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز...لكن يجب أن يكون التقويمبما هو ‌أنفع ‌للفقراء قدرا ورواجا."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث، الفصل الثاني في العروض، 179/1، ط؛ دار صادر، بيروت)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"( ومنها العقل والبلوغ ) فليس الزكاة علي صبي ومجنون".

( الهندية : كتاب الزكاة، (1171)مكتبه رشيديه )

منحۃ الخالق علی البحر الرائق میں ہے:

"(قوله والصحيح الوجوب) عزاه في البدائع إلى الإمام حيث قال: ثم عند أبي حنيفة يعتبر في التقويم منفعة الفقراء كما هو أصله حتى روي عنه أنه قال: إذا كان لرجل خمسة وتسعون درهما ودينار يساوي خمسة دراهم أنه تجب الزكاة، وذلك بأن تقوم الفضة بالذهب كل خمسة منها بدينار."

(کتاب الزکاۃ ،جلد: 2 ،ص: 230، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307102130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں