بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

3 طلاق دینے سے تمام مسالک میں 3 طلاق واقع ہوجاتی ہیں


سوال

میں حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں میرا سوال تین طلاق سے متعلق ہے میرا ایک دوست اہلِ حدیث ہے جس نے مجھے الجھا رکھا ہے کہ دیوبندی لوگوں میں تین طلاق کا کانسپٹ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، لہذا تین طلاق دینے کے باوجود ایک ہی ہوتی ہے اور شوہر بیوی سے رجوع کرسکتا ہے۔ برائے کرم میری راہ نمائی کریں کہ درست بات کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے لے کر آج تک امت کا اجماع ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق ایک ہی جملہ سے دی جائیں یا الگ الگ جملہ سے دی جائیں یا مختلف اوقات میں دی جائیں بہر صورت تین طلاق ہی واقع ہوتی ہیں اسی پر تمام مسالک کے ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) کا فتوی بھی ہے اور یہی بات خلفاءِ راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے سمجھی تھی اور اسی کے مطابق عمل کرتے رہے، نیز امام بخاری و دیگر محدثین رحمہم اللہ کا مسلک بھی یہی تھا؛ لہذا مذکورہ شخص کا دعوی درست نہیں ہے۔

ایک جملہ سے تین طلاق کے وقوع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بخاری شریف (٢/٧٩١) اور سنن ابي داؤد، باب اللعان(١/٣٢٤) میں مذکور ہے: "عن ابن شهاب عن سهل بن سعد في هذا الخبر قال: فطلقا ثلاث تطليقات عند رسول الله صلي الله عليه وسلم، فأنفذه رسول الله صلي الله عليه وسلم".( ابو داؤد).

خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن أبي شيبة"میں مذکور ہے: "عن انس رضي الله عنه: كان عمر رضي الله عنه إذا أتي برجل قد طلق إمرأته ثلاثا في مجلس اوجعه ضرباً و فرق بينهما". (باب من كره ان يطلق الرجل إمرأته ثلاثا ٤/١١).

خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن ابي شيبة"میں مذکور ہے: "عن معاوية ابن ابي يحي قال: جاء رجل الي عثمان فقال: إني طلقت امرأتي مائة؛ قال: ثلاث تحرمها عليك و سبعة و تسعون عدوان". ( باب ماجاء يطلق إمرأته مائة و الف في قول واحد ٤/١٣).

خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف عبد الرزاق"میں مذکور ہے: "عن شريك بن ابي نمر قال: جاء رجل الي علي رضي الله عنه فقال: إني طلقت إمرأتي عدد العرفج؛ قال: تأخذ من العرفج ثلاثا و تدع سائره". (باب الطلق ثلاثا ٦/٣٠٦).

تفسیر "احکام القرآن" للقرطبی میں امت کا اجماع منقول ہے:"قال علمائنا: و اتفق ائمة الفتوي علي لزوم ايقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة". (١/٦٩٢)۔

"مسلم شریف "کی شرح "الجامع الصحيح" للنوويمیں ہے: "وقد اختلف العلماء فيمن قال لإمرأته: "انت طالق ثلاثا" فقال الشافعي و مالك و ابو حنيفة و احمد و جماهير العلماء من السلف و الخلف: يقع الثلاث". (١/٤٧٨ ط: قديمي)

احناف کی فتوی کی مشہور کتاب "فتاوی شامی" میں ہے: "(قوله: ثلاثة متفرقة) و كذا بكلمة واحدة بالأولي... و ذهب جمهور الصحابة و التابعين و من بعدهم من ائمة المسلمين الي أنه يقع الثلاث". ( كتاب الطلاق : مطلب طلاق الدور ٣/٣٣٣ ط:سعيد).

فقہ مالکی کی مشہور کتاب "التمهيد" لابن عبد البرمیں ہے:"فإن طلقها في كل طهر تطليقة او طلقها ثلاثا مجتعات في طهر لم يمس فيه فقد لزمه". (٦/٥٨)

امام شافعی کی مشہور کتاب " كتاب الام"میں ہے:"و القران يدل-و الله اعلم- علي ان كن طلق زوجة له دخل بها او لم يدخل بها ثلاثا لم تحل له حتي تنكح زوج غيره". (ج:٢)

فقہ حنبلی کی مشہور کتاب "مسائل احمد" برواية إبنهمیں ہے: " قلت لأبي: رجل طلق ثلاثاً وهو ينوي واحدة؟ قال: هي ثلاث". (ص:٣٧٣)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143903200063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں