بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

15 لاکھ کے مقروض تاجر کے لیے زکوٰۃ لینے کا حکم


سوال

میں ایک تاجر ہوں اور مجھ پر 15 لاکھ کا قرضہ ہے اور میرا ایک مکان ہے جو چھ بھائی اور چار بہنیں اور والدہ کا مشترک ہے جو والد صاحب کے انتقال کے بعد ترکہ میں ملا ہے مکان کے نیچے دو دکانیں کرائے پر دی ہوئی ہیں پر اور میرے تین بچے ہیں اور میں کچھ گھریلو تنگی کیوجہ سے کرائے کے مکان میں رہتا ہوں مجھ پر 15 لاکھ کا قرضہ ہے جو میں ادا کرنے سے قاصر ہوں تو کیا میں زکوٰۃ لے سکتا ہوں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر آپ سید نہیں ہیں اور آپ کا مالِ تجارت، آپ کے پاس سونا، چاندی اور نقدی ملا کر ضرورت سے زائد جو سامان ہو، اس میں سے 15 لاکھ قرضے کو منہا کرنے کے بعد اگر آپ کی ملکیت میں  ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے تو آپ کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے۔

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

''لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي''.

(1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه) 

نوٹ : یہ کسی کے مستحق زکاۃ ہونے کی تصدیق نہیں بلکہ صرف پوچھے گئے سوال کا جواب ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں