بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیرون ملک مقیم شخص اپنےنابالغ بچوں کا صدقتہ الفطر پاکستان میں ادا کرسکتا ہے؟


سوال

میں سعودی عرب میں مقیم ہوں ،کیا میں اپنے بیوی بچوں اور والدین کاصدقہ فطر پاکستان میں دے سکتا  ہوں؟

جواب

صدقہ فطر کی مقدار گندم کے حساب سے  پونے دو کلو گندم ہے اور کھجور، جو اور کشمش کے حساب سے ساڑھے تین کلو  کھجور، جَو  اور کشمش  ہے، چاہےکہیں بھی ادا کیا جائے، اور اگر قیمت ادا کرنی ہے تو جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے  وہاں کا اعتبار ہوگا، لہذا  اگر آپ سعودی عرب میں مقیم ہیں اور عید الفطر بھی وہیں کریں گے تو  آپ پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر ، سعودی عرب  کے نرخ کے حساب سے دینا لازم  ہوگا،  لہذا اب اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر بھی  سعودی عرب  کی قیمت کے حساب ادا کریں گے  خواہ آپ یہ قیمت سعودی عرب میں ادا کریں یا آپ کی اجازت سے پاکستان میں ادا کی جائے۔

باقی  آپ کےوالدین اہلیہ اور بالغ بچے   اگر پاکستان میں  ہیں تو  ان کاصدقہ  آپ پر لازم نہیں ،انہی پر لازم ہےاس لئے وہ   اپنا صدقہ فطر  پاکستان کے نرخ کے مطابق  اداکریں گے، اور اگر آپ  ان کی طرف سے ادا کرنا چاہتے ہیں تو ایسی قیمت لگانا بہتر ہے جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.

(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه".

 (كتاب الزكاة، فروع في مصرف الزكاة، ج:2،ص:355، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات". 

(كتاب الزكاة، الباب السابع، ج:1،ص:190، ط: دارالفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں