بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی وجہ سے حمل ضائع کروانا


سوال

 میرا چھ ماہ کا بچہ ہے اور پونے دو سال اور پانچ سال کی بچیاں، مجھے ہیپاٹائٹس سی ہوا ہے، جس کی وجہ سے جسم میں بہت شدید درد ہوتاہے،جس کی وجہ سے  مجھے  بچے سنبھالنےمیں   بہت مشکل ہے، مگر اب ہیپاٹائٹس کا علاج کروانے ہی والی تھی کہ مجھے حمل ہو گیا ہے، نہ مجھ سے ٹھیک سے کھایا جاتاہے، معدے میں تیزابیت کی وجہ سے جلن ہوتی ہےاور پریگننسی میں الٹیاں بہت آتی ہیں ، جس سے مجھے ویکنس بہت ہو رہی کہ میں دو قدم چلنے سے قاصر ہوں اور ہیپاٹائٹس ، تھائی رائیڈ ،کی وجہ سے میں پہلے ہی بہت تکلیف میں مبتلا ہوں، تو کیا اس صورت میں یہ بچہ ضائع کروانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حمل ضائع کرنے کے بارے میں شرعی اصول یہ ہے،  کہ اگر  حمل  چار  ماہ  سے  کم کا ہو،  اور  ماہر ڈاکٹر  یہ   کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے  ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت اس حمل کاتحمل نہیں کرپاۓ گی،  تو ان  جیسےاعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے    پہلے  (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، البتہ چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ  خاتون کے بہت زیادہ کمزور ہونے کی وجہ سےاس کی جان یابچےکی جان جانے کا اندیشہ ہو، اورمسلمان و ماہر ڈاکٹر کی رائے کے مطابق اسقاطِ حمل ضروری ہو، تو مذکورہ  اعذار کی بناء پر   حمل  میں روح پڑجانے سے پہلے پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے،اس سےپہلےپہلے)  حمل  کو ساقط کرناجائزہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ویکره أن تسعی لإسقاط حملها، وجاز لعذر حیث لایتصور.... (قوله: ویکره الخ) أي مطلقًا قبل التصور و بعد علی ما اختاره في الخانیة کما قد مناه قبیل الا ستبراء، وقال: إلا أنّها لاتأثم إثم القتل. (قوله: وجاز لعذر) کالمرضعة إذا ظهربه الحبل وانقطع لبنها ولیس لأب الصبي ما یستأجر به الظئر وخاف هلاك الولد، قالوا: یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو، وقدروا تلك المدة بمائة وعشرین یوماً، وجاز؛ لأنّه لیس بآدمي، وفیه صیانة الآدمي، خانیة."

(كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، فصل في البيع، فرع يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس، ج:6  ص:429 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں