کیا غیر مسلم کسی بھی مسجد میں داخل ہو سکتا ہے یا داخل کیا جاسکتا ہے تاکہ صفائی کے ساتھ اس پر دعوت کا کام بھی ہو سکے یا بغیر کسی بھی کام کے تا کہ دین کی دعوت کا ہو سکے؟
کفار کے اعضاء اور کپڑے ظاہری طور پر پاک ہوں تو ان کو عام مساجد میں آنے کی اجازت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے خود بنو ثقیف کے وفد کو جو کہ غیر مسلم تھا مسجد میں ٹھہرایا اور یہ بھی ارشاد فرمایا :
"إن الأرض لاتنجس ، إنما ینجس ابن آد م".
یعنی (شرک کی نجاست سے) زمین ناپاک نہیں ہوتی، آدمی ناپاک ہوتا ہے۔
اسی طرح مختلف کفار ومشرکین کا مسجدِ نبوی میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا اور بعض کفار کو مسجدِ نبوی میں مقیدکرنا بھی ثابت ہے۔
"وقال الحنفیة : لایمنع الذمي من دخول الحرم، ولایتوقف جواز دخوله علی إذن مسلم ولو کان المسجد الحرام، یقول الجصاص في تفسیر قوله تعالیٰ : ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَیَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ﴾ یجوز للذمي دخول سائر المساجد". ( الموسوعة الفقهية ۱۷ ؍ ۱۸۹ الکویت )
"عن الحسن أن وفد ثقیف أتوا رسول اﷲﷺ فضربت لهم قبة في مؤخر المسجد؛ لینظروا إلی صلاة المسلمین إلی رکوعهم وسجودهم ، فقیل : یارسول اﷲ ! أتنزلهم المسجد وهم مشرکون؟ فقال: إن الأرض لاتنجس ، إنما ینجس ابن آد م". (مراسیل أبي داؤد/۶، رقم: ۱۷)
"وعن سعید بن المسیب أن أبا سفیان ، کان یدخل المسجد بالمدینة وهو کافر". ( مراسیل أبي داؤد /۶، رقم:۱۸) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200382
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن