بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایڈ پر کلک کرکے پیسہ کمانا


سوال

ایک  کمپنی ہے جو چھ سال سے یہ کام کر رہی ہے، اسد بیس ہزار دے کر اس میں رجسٹریشن کراتا ہے،  اب دن میں مجھے 100 ایڈز ملتے ہیں، میں اپنے موبائل میں انٹرنیٹ کے ذریعے ایک مخصوص id کھولتا ہوں اور ایڈز آئے ہوئے ہوتے ہیں،  ترتیب وار ان ایڈز کو کھولنا پڑتا ہے،  ہر ایڈ تیس سیکنڈ چلتا ہے، اور ہر ایڈ پر دس روپے ملتے ہیں جو میرے jazz موبائل اکاؤنٹ میں جمع ہوتے ہیں جو میں ایک مدت بعد اسے نکالتا ہوں،  مشین میں چھبیس ہزار ہو جاتے ہیں اور ایڈز مختلف ہوتے ہیں،  اکثر اوقات سمپل ہوتے ہیں،  کبھی کبھار نا  محرم کی تصاویر بھی ہوتی ہیں،  یہ کمائی حلال ہے یا حرام؟ اور بیس ہزار دیتے ہیں تو  پورا مہینہ ملتا ہے اور چھ مہینے بعد دوبارہ اگر اسد چاہے  بیس ہزار اور دے کر رینیو کرا سکتے ہیں۔

جواب

         اس طریقہ کار پر کام کرکے پیسہ کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

  1. اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔
  2.  جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں۔لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔
  3. ان اشتہارات میں  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔
  4.  نیز اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے ۔حدیث شریف میں ہے:

شعب الإيمان (2/ 434):

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".

ترجمہ:آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2112):

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

شامی(6/ 63):

"مطلب في أجرة الدلال ، قال في التتارخانية : وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل ، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم .

وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال : أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 290):

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لا يستحق به أجرة . ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولا يجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها ، ولا على حمل الخنزير". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں