پاکستان میں موبائل نمبر پر ایک اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے جسے ’’ایزی پیسہ‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں آپ پیسے ڈالتے ہیں اور اس اکاؤنٹ سے آپ مختلف قسم کے بلز ادا کر سکتے ہیں، کسی دوسری جگہ پر بندہ کو پیسے بھیجواسکتے ہیں، مختلف جگہ پر کام آتا ہے، کمپنی اکاؤنٹ میں ہزار یا اس سے زیادہ رکھنے پر 50 فری منٹس اور 50 انٹرنیٹ ایمبیز روزانہ دیتی ہے، اب مجھے پوچھنا ہے کہ اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟اکاؤنٹ میں پیسے رکھنا بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ کسی بھی وقت ضرورت پڑ سکتی ہے، بل جمع کرنا ہو یا کچھ لینا ہو یا موبائل لوڈکرنا، اس کے لیے پیسے رکھنا پڑتے ہیں، اور فری منٹس دینے یا نہ دینے پر ہمارا اختیار نہیں اور ایک دفعہ آجائے تو آپ نہ بھی چاہو تو استعمال ہو جاتے ہیں۔
’’ایزی پیسہ اکاؤنٹ ‘‘ ایک ایسی سہولت ہے جس میں آپ اپنی جمع کردہ رقوم سے کئی قسم کی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں، مثلاً: بلوں کی ادائیگی، یا رقوم کا تبادلہ، موبائل وغیرہ میں بیلنس کا استعمال وغیرہ ۔ نیز تحقیق کرنے پر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کی پشت پر ایک بینک ہوتا ہے، "telenor micro-financing bank "، یہ بھی ایک قسم کا بینک ہی ہے کہ جس میں عام طور پر چھوٹے سرمایہ داروں کی رقوم سود پر رکھی جاتی ہیں اور اس میں سے چھوٹے کاروباروں کے لیے سود پر قرض بھی دیا جاتا ہے۔
اس کی فقہی حیثیت یہ ہے کہ اس اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم قرض ہے ، اور چوں کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے ؛ اس لیے اس قرض کے بدلے کمپنی کی طرف سے دی جانے والی سہولیات وصول کرنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، لہذا کمپنی اکاؤنٹ ہولڈر کو اس مخصوص رقم جمع کرانے کی شرط پر یومیہ فری منٹس اور میسیجز وغیرہ کی سہولت فراہم کرتی ہے یا رقم کی منتقلی پر ڈسکاؤنٹ وغیرہ دیتی ہے یا ایزی لوڈ پر کیش بیک دیتی ہے تو ان کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا درحقیقت قرض ہے، اور قرض دینا تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن کمپنی اس پر جو مشروط منافع دیتی ہے، یہ شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ قرض پر شرط لگا کر نفع کے لین دین کو نبی کریم ﷺ نے سود قرار دیا ہے۔ (مصنف بن أبی شیبہ، رقم:۲۰۶۹۰ )
نیز چوں کہ اس صورت میں مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا ناجائز معاملے کےساتھ مشروط ہے ؛ اس لیے یہ اکاؤنٹ کھلوانا یا کھولنا بھی جائز نہیں ہوگا۔
اگر کوئی ’’ایزی پیسہ اکاؤنٹ‘‘ کھلواچکاہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ جلد از جلد مذکورہ اکاؤنٹ ختم کروائے اور صرف اپنی جمع کردہ رقم واپس لے سکتاہے، یا صرف جمع کردہ رقم کے برابر استفادہ کرسکتاہے، اس رقم پر ملنے والے اضافی فوائد حاصل کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہوں گے۔
اور اگر کوئی کمپنی ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوانے کو اس ناجائز معاملہ کے ساتھ مشروط نہ کرے، یعنی مخصوص رقم رکھوانے کی شرط کے بغیر ہی کھولا جائے، یا کمپنی نے از خود کھول دیا ہو تو پھر رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور دیگر اس طرح کے کاموں کےلیے اس اکاؤنٹ کا استعمال جائز ہوگا، اب اس صورت میں اس اکاؤنٹ کے استعمال کی صورت میں اگر کوئی رعایت یا کیش بیک ملتا ہے تو اس کے حکم میں یہ تفصیل ہوگی کہ اگر وہ کیش بیک اور رعایت اسی کمپنی کی طرف سے مل رہا ہے تو یہ ان کی طرف سے تبرع ہوگا، اور اس کا استعمال جائز ہوگا، اور اگر یہ رعایت اس کی پشت پر موجود بینک کی طرف سے مل رہا ہے تو پھر اس رعایت کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس بارے میں معلومات کرلی جائیں، اور جب تک معلومات نہ ہوں ان کیش بیک اور سہولیات کے استعمال سے احتیاط کی جائے۔
اور اگر کوئی کمپنی ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوانے کو مخصوص رقم جمع کرانے سے بھی مشروط نہ کرے، اور رقم جمع کرنے پر اضافی رقم یا سہولیات وغیرہ بھی نہ دے، بلکہ رقوم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی یا لوڈ کرنے کی حد تک سہولیات ہوں تو ایسا اکاؤنٹ کھلوانا اور اس سے استفادہ کرنا جائز ہوگا۔
واضح رہے کہ عموماً ایزی پیسہ اکاؤنٹ پہلی صورت والا ہوتاہے، اس لیے ’’ایزی پیسہ اکاؤنٹ‘‘ کھلوانے سے اجتناب کیا جائے۔
"فتاوی شامی" میں ہے:
"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن". (5/166، مطلب کل قرض جر نفعا، ط: سعید)
وفیہ ایضا (6/ 63):
"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضاً عن منفعة القرض لا مجاناً".
"اعلاء السنن"میں ہے:
" قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادة أو هدیة فأسلف علی ذلک، إن أخذ الزیادة علی ذلک ربا". (14/513، باب کل قرض جر منفعةً، کتاب الحوالة، ط: إدارة القرآن)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200874
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن