اسٹیٹ لائف انشورنس میں بیمہ پالیسی کرنا یا کروانا جائز ہے یا حرام ؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں!
زمانے کی جدت کے ساتھ ساتھ ہر چیز کے اندر جدت اور تبدیلی آرہی ہے، اسی حقیقت کے پیشِ نظر سودی کاروبار اور جوئے کی شکلوں میں بھی خاصی تبدیلی آگئی ہے، لیکن ان شکلوں کے بنیادی عناصر کو دیکھا جائے تو ان کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
مروجہ انشورنس کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے، دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر "سود" کے ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کرسکتی۔
انشورنس میں "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے، اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔
اسی طرح اس میں جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی پایا جاتا ہے، اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے فاسد قرار دیا ہے، لہذا انشورنس کرنا اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]
شرح معانی الآثار میں ہے:
" عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ»". (2/313، کتاب الکراهة، ط: حقانيه)
صحیح مسلم میں ہے:
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".(3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".(4/483، کتاب البیوع والاقضیہ، ط: مکتبہ رشد، ریاض)
فتاوی شامی میں ہے:
"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ".(6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200759
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن