بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ہدایت و کج روی محکم اور متشابہ آیات کی روشنی میں

ہدایت و کج روی

محکم اور متشابہ آیات کی روشنی میں


اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: 
’’ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ۝۰ۭ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْـغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِیْلِہٖ۝۰ۚ۬ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ۝۰ۘؔ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ۝۰ۙ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا۝۰ۚ وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۔ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۝۰ۚ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔‘  (سورۃ آل عمران:۷-۸) 
ترجمہ: ’’ وہ ایسا ہے جس نے نازل کیا تم پر کتاب کو جس میں کا ایک حصہ وہ آیتیں ہیں جو کہ اشتباہِ مراد سے محفوظ ہیں اور یہی آیتیں اصلی مدار ہیں (اس) کتاب کا اور دوسری آیتیں ایسی ہیں جو کہ مشتبہ المراد ہیں۔ سو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے، وہ اس کے اسی حصہ کے پیچھے ہولیتے ہیں جو مشتبہ المراد ہے (دین میں) شورش ڈھونڈنے کی غرض سے اور اس کا (غلط) مطلب ڈھونڈنے کی غرض سے، حالانکہ ان کا (صحیح) مطلب بجز حق تعالیٰ کے کوئی اور نہیں جانتا۔ جو لوگ علم (دین) میں پختہ کار (اور فہیم) ہیں، وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم اس پر (اجمالاً) یقین رکھتے ہیں (یہ) سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو کہ اہلِ عقل ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! ہمارے دلوں کو کج نہ کیجیے بعد اس کے کہ آپ ہم کو ہدایت کرچکے ہیں اور ہم کو اپنے پاس سے رحمت (خاصہ) عطا فرمائیے۔ بلاشبہ آپ بڑے عطا فرمانے والے ہیں۔‘‘(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آیاتِ قرآنیہ کی دوقسمیں بیان فرمائی ہیں: ۱- محکمات۔ ۲-متشابہات، اور پھر ان ہر دو قسم کی آیات کے ساتھ طرزِ عمل کے اعتبار سے لوگوں کی بھی دوقسمیں بیان فرمائی ہیں: ۱- اہلِ زیغ، ٹیڑھ والے، جن کے دلوں میں کجی اور ٹیڑھا پن ہے۔ ۲-اہلِ ہدایت، راسخین فی العلم، علم میں رسوخ اور پختگی رکھنے والے، ہدایت یافتہ۔
اس مضمون میں انہی آیاتِ مبارکہ کی تفسیر وتشریح کے طور پر درج ذیل امور بالترتیب بیان کیے جائیںگے: ۱-محکمات کا معنی اور ان کا حکم۔ ۲-متشابہات کا معنی اور ان کا حکم۔ ۳-اہلِ زیغ کا طرزِ عمل۔ ۴- اہلِ ہدایت اور راسخین فی العلم کا طرزِ عمل۔ ۵- اہلِ زیغ کے متعلق نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اپنی امت کو ہدایت۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ ۶- حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے دور کے ایک گمراہ فرقے کا تذکرہ، جس کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہلِ زیغ میں سے قرار دیا۔ ۷- مسلمان بھائیوں سے دردمندانہ اپیل۔
 اس اجمال کے بعد اب تفصیل ذکر کی جاتی ہے۔

امرِ اول: محکمات کا معنی اور ان کا حکم

محکمات پختہ اور مضبوط چیزوں کو کہتے ہیں۔ اور آیاتِ محکمات وہ آیات ہیں جن میں درج ذیل صفات پائی جائیں: ’’۱- ان کا معنی ایسا ظاہر وبین ہو کہ عربی قواعد جاننے والا بآسانی سمجھ لے۔ ۲- وہ معنی متفق علیہ ہو، یعنی اس میں علماء کا اختلاف نہ ہو۔ ۳- عقل کے موافق ہو۔ ۴- ان آیات کی مراد معلوم ومتعین ہو۔‘‘ (تفسیر عثمانی، معارف القرآن، جواہر القرآن بحوالہ المعتمر من مختصر مشکل الآثار للطحاوی) 
اور حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  نے محکمات ان آیات کو قرار دیا ہے جو منسوخ نہ ہوئی ہوں، ان میں حلال وحرام اور حدود وفرائض کا بیان ہو، اور وہ مامور بہا ومعمول بہا ہوں، یعنی ان پر عمل کرنے کا حکم ہو۔ (تفسیر ابن کثیر) 
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کی وہ تمام آیات جن میں ایمانیات وعقائد، حلال وحرام اور حدود وفرائض سیدھے سادے دو ٹوک انداز میں بیان کیے گئے ہیں، وہی سب آیات محکمات ہیں اور مذکورہ بالا چار صفات کی حامل ہیں۔ محکمات کا حکم یہ ہے کہ ان کی تصدیق کرنا اور ان پر عمل کرنا فرض وواجب ہے۔

امرِ دوم: متشابہات کا معنی اور ان کا حکم

’’متشابہ‘‘ ملتی جلتی اور مشتبہ چیز کو کہتے ہیں۔ آیاتِ متشابہات وہ آیات ہیں جن میں درج ذیل صفات پائی جائیں: ۱-عربی قواعد کا علم رکھنے پر ان کی تفسیر اور معانی ظاہرنہ ہوں۔ ۲- ان کی تاویل ومعنی میں اختلاف ہو،یعنی مختلف فیہ ہو۔ ۳- ان کا ظاہر سمجھ سے بالاتر ہو یعنی عقل کے موافق نہ ہو۔۴: ان کی مراد یا تو سرے سے معلوم ہی نہ ہو یا متعین نہ ہو، یعنی اس میں کچھ اشتباہ والتباس واقع ہو جائے۔ (تفسیر عثمانی، معارف القرآن، جواہر القرآن بحوالہ المعتمر من مختصر مشکل الآثار للطحاوی)
اس تفصیل کی روشنی میں تین قسم کی آیات، آیاتِ متشابہات میں داخل ہوں گی: ۱- حروفِ مقطعات جیسے الٓمٓ، حٰمٓ، یٰسِٓیْن وغیرہ جو سورتوں کے شروع میں واقع ہوئے ہیں، ان حروف کے معانی ہی سرے سے معلوم نہیں ہیں۔ ۲- وہ آیات والفاظ جن کا لفظی معنی تو معلوم ہوسکتا ہے، لیکن ان کی مراد معلوم ومتعین نہیں، جیسے ید اللہ، وجہ اللہ وغیرہ کے الفاظ، اور حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کے بارے میں کلمۃ اللہ وروح اللہ وغیرہ کے الفاظ۔ ۳: وہ آیات جن کی تاویل میں علماء حق، علماء ربانیین کا اختلاف ہو جائے،کیونکہ اختلاف کے بعد ان کی بھی مراد متعین نہ رہی، بلکہ مشتبہ ہوگئی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ صرف علماء ربانیین کا اختلاف مراد ہے جن کا علم وعمل اور تقویٰ ودیانت عامۃ المسلمین کے نزدیک مسلم ہوتا ہے۔ ہر ایرے غیرے کا اختلاف معتبر نہیں، کیونکہ وہ تو محکمات میں بھی اختلاف کرسکتا ہے۔ ان تین قسموں کے علاوہ ایک چوتھی صورت یہ بھی ہے کہ کسی محکم آیت کو ایسا معنی پہنایا جائے جو اسلاف کے بیان کردہ معنی کے سراسر خلاف ہو۔ ایسا شخص بھی متشابہات کے پیچھے پڑنے والے اہلِ زیغ میں داخل ہوگا۔ آیاتِ متشابہات کا حکم یہ ہے کہ ان پر ایمان لایاجائے کہ یہ سب اللہ کا کلام ہے، اور ان کی مراد اللہ تعالیٰ کے سپرد کردی جائے، اس میں بحث ومباحثہ یا گفتگو نہ کی جائے، یاپھر ان کی ایسی مراد بیان کی جائے جو محکمات کے خلاف نہ ہو، جیساکہ متاخرین تاویل کرتے ہیں۔

امرِ سوم: اہلِ زیغ کا طرزِ عمل

زیغ سے دل کی کجی، حق سے روگردانی اور خواہشِ نفس کی طرف میلان مراد ہے۔ (تفسیر ابوالسعود بحوالہ جواہر القرآن) لہٰذا اہلِ زیغ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب میں اس قسم کی باتیں موجود ہوں، قرآن کریم نے اس قسم کے لوگوں کا طرزِ عمل واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ: ’’وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کےپیچھے پڑ جاتے ہیں اور ان کے اصل مفہوم کی کھود کرید میں لگ جاتے ہیں، جس سے ان کا مقصد صرف یہ ہوتاہے کہ شر وفساد پھیلا کر مسلمانوں کے دلوں میں مختلف قسم کے شکوک وشبہات پیدا کریں اور مختلف طریقوں سے انہیں گمراہ کریں، حالانکہ متشابہات کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔‘‘ (تفسیر جواہر القرآن) 
خلاصہ یہ کہ اپنی درس گاہوں اور اکیڈمیوں میں اور اپنے جلسوں اور تقریروں میں اہلِ زیغ کی گفتگو کا موضوع صرف اور صرف آیاتِ متشابہات اور ان میں بیان کردہ امور ہوتے ہیں اور عموماً یہ سب کچھ خدمتِ دین وخدمتِ اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے۔ 
مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس ـراسخین فی العلم کے بر خلاف بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں کجی ہے، وہ محکمات سے آنکھیں بند کرکے متشابہات کی کھوج میں لگے رہتے ہیں، اور ان سے اپنی خواہش کے مطابق معانی نکال کر لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن وحدیث میں سخت وعید آئی ہے۔‘‘ (تفسیر معارف القرآن) 
یہ وعید آگے امرِ پنجم میں آرہی ہے۔ اور تفسیر عثمانی میں ہے: 
’’اب ایک شخص ان سب محکمات سے آنکھیں بند کرکے متشابہات کو لے دوڑے، اور اس کے وہ معنی چھوڑ کر جو محکمات کے موافق ہوں، ایسے سطحی معنی لینے لگے جو کتاب کی عام تصریحات اور متواتر بیانات کے منافی ہوں، یہ کج روی اور ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہوگی؟بعض قاسی القلب تو چاہتے ہیں کہ اس طرح مغالطہ دے کر لوگوں کو گمراہی میں پھنسادیں، اور بعض کمزور عقیدہ والے ڈھلمل یقین ایسے متشابہات سے اپنی رائے اور ہوا کے مطابق کھینچ تان کر مطلب نکالنا چاہتے ہیں، حالانکہ ان کا صحیح مطلب صرف اللہ ہی کو معلوم ہے۔‘‘                (تفسیر عثمانی)
 اس تفصیل سے اہلِ زیغ کا طرزِ عمل خوب اچھے طریقے سے معلوم ہو گیا کہ قرآن وسنت کی سادہ اور بنیادی تعلیمات کو چھوڑ کر اختلافی مسائل کو اور مشتبہ امور کو عوام الناس میں پھیلاتے ہیں، تاکہ لوگوں میں فتنہ یعنی شر وفساد کا بازار گرم رہے اور امت اختلاف وانتشار کا شکار رہے۔

امرِ چہارم: اہلِ ہدایت، راسخین فی العلم کا طرز عمل

جن کے دلوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کج روی سے بچا کر ہدایت عطا فرمادی ہے اور جنہیں خود قرآن کریم نے ’’راسخین فی العلم‘‘ کے معزز لقب سے ذکر فرمایا ہے، ان کا طرزِ عمل بھی قرآن کریم نے واضح الفاظ میں بیان فرمادیاہے کہ وہ متشابہات کو اللہ تعالیٰ کا کلام مانتے ہوئے ان پر ایمان لاتے ہیں، ان کے پیچھے نہیں پڑتے، بلکہ ان کو محکمات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر محکمات کی روشنی میں ان کا کوئی مفہوم ان کی سمجھ میں آجائے تو محکمات کی طرح ان پر بھی عمل کر لیتے ہیں، ورنہ خاموش ہو جاتے ہیں اور صرف ایمان بالمتشابہات پر اکتفاء کرتے ہیں اور ظن وتخمین سے ان کا کوئی مفہوم متعین کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ (تفسیر جواہر القرآن) 
مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ ’’راسخین فی العلم‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: 
’’راجح قول یہ ہے کہ ان سے مراد اہل السنۃ والجماعۃ ہیں، جو قرآن وسنت کی اس تعبیر وتشریح کو صحیح سمجھتے ہیں، جو صحابہ کرامؓ، سلف صالحین اور اجماعِ امت سے منقول ہو، اور قرآنی تعلیمات کا محور ومرکز محکمات کو مانتے ہیں، ان کی طبیعتیں فتنہ پسند نہیں ہوتیں کہ متشابہات ہی کے پیچھے لگی رہیں۔‘‘  (تفسیر معارف القرآن) 
اس تفصیل سے اہلِ ہدایت، راسخین فی العلم کا عمل بھی وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا۔

دو مزید اشارات

اس آیتِ کریمہ میں دو مزید اشارے بھی توجہ کے قابل ہیں: ۱- علم کے ساتھ یہاں رسوخ بھی ذکر کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قرآن وسنت کا صرف علم کافی نہیں، بلکہ اس میں رسوخ بھی ضروری ہے۔ نیز علم بغیر رسوخ کے تو بڑے بڑے پروفیسروں اور اسکالروں کے پاس بھی ہوتاہے۔ 
۲- اس آیتِ کریمہ میں دوسرا اشارہ یہ ہے کہ متشابہات کے پیچھے اپنی توانائیاں صرف کرنے والے اہلِ زیغ، علماء دین میں شمارکیے جانے کے ہرگز لائق نہیں، چاہے لوگ ان کو کتنا بڑا علامہ اور محقق کیوں نہ مانتے ہوں، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ہدایت، راسخین کا ذکر فرماتے ہوئے تو علم کا ذکر کیا، لیکن ان سے پہلے اہلِ زیغ کے ذکر میں علم کے لفظ کا اشارہ تک نہیں دیا، بلکہ اسم موصول سے ان کا ذکر کیا، اور علمِ معانی کے مطابق مسند الیہ کو معرفہ بصورت اسم موصول لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مسند الیہ کے نام کی تصریح متکلم کے نزدیک قبیح ہو، پس اہلِ علم میں شمار ہونا تو دور کی بات، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہلِ زیغ کے ناموں کا تذکرہ بھی پسندیدہ نہیں۔

امرِ پنجم: اہلِ زیغ کے بارے میں امت کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہدایت

اہلِ زیغ چونکہ انتہائی خطرناک ہیں، دین اور خیر کے لبادے میں شر وفساد پھیلاتے ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چودہ سو سال پہلے ہی اپنی امت کو ان کے متعلق خبردار کردیا، چنانچہ اما م بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح بخاری کی ’’کتاب القدر‘‘ میں اور امام ابوداود  رحمۃ اللہ علیہ  نے سنن ابی داود کی ’’السنۃ‘‘ میں، تینوں حضرات نے قعنبی کے طریق سے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیتِ کریمہ تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: ’’جب ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں، پس یہی وہ لوگ ہیں جن کا اللہ نے (اس آیت میں) ذکر فرمایا ہے، لہٰذا ان سے بچو۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر) حدیث کے آخری لفظ ہیں ’’فاحذروہم‘‘ یہی وہ اہم ترین ہدایت ہے جو اللہ کے پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہلِ زیغ کے متعلق اپنی امت کو ارشاد فرمائی۔ اس حدیث کی روشنی میں کسی بھی ایسے شخص کی مجلس میں بیٹھنا، اس کی اکیڈمی اور درس گاہ میں داخلہ لینا، اس کے بیان وتقریر کو سننا اور اس کے جلسے میں شرکت کرنا ہرگز جائز نہیں، جو اہلِ زیغ میں سے ہو۔

امرِ ششم: دورِ صحابہؓ 

حضرات صحابہ  رضی اللہ عنہم  کے دور میں ایک فرقہ پیدا ہوا جن کو ’’خوارج‘‘ کہا جاتا ہے، حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے دور میں ان کی قوت بہت بڑھ گئی تھی، چنانچہ نہروان کے مقام پر حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے ان کے ساتھ جنگ کرکے ان کا خاتمہ کردیا۔ بعد میں انہی کے بچے کھچے لوگوں میں سے کئی مزید گمراہ فرقے پیدا ہوئے اور آج تک انہی کے اصول پر مسلمانوں میں گمراہ فرقے پیدا ہوتے چلے آئے ہیں، لہٰذا یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس فرقہ کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟ اور ان کا طرزِ عمل کیا ہے؟تاکہ اس کی روشنی میں موجودہ دور کے اہلِ زیغ کو پہچانا جاسکے، چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ اسلام میںسب سے پہلی واقع ہونے والی بدعت خارجیوں کا فتنہ تھا اور ان کی ابتدا کا سبب دنیا کی محبت بنی۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ غزوۂ حنین کے بعد جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حنین کی غنیمتیں تقسیم فرمائیں تو خارجیوں نے اپنی فاسد عقلوں میں یہ خیال کیا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس تقسیم میں عدل وانصاف نہیں فرمایا۔ (العیاذ باللہ) چنانچہ ان کے ایک شخص ذوالخویصرہ نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ گستاخانہ جملہ بولاکہ: ’’عدل کیجئے، کیونکہ آپ نے عدل نہیں کیا۔‘‘ (العیاذ باللہ) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب میں فرمایا: ’’اگر میں نے انصاف نہ کیا تو میں خسارہ اٹھاؤںگا۔اللہ تعالیٰ تو اہلِ زمین کے متعلق مجھ پر اعتبار کرتا ہے (کہ نبی بناکر بھیجا) اور تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے۔ (افسوس!)‘‘ جب وہ آدمی چلاگیا تو حضرت خالد  رضی اللہ عنہ  نے اس کو قتل کرنے کی اجازت مانگی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اس کو چھوڑو! اس کی نسل سے ایک قوم پیدا ہوگی، ان کی نمازوں کے ساتھ تم اپنی نمازوں کو، روزوں کے ساتھ اپنے روزوں کو اور ان کی تلاوت کے ساتھ اپنی تلاوت کو حقیر جانوگے (لیکن ان عبادات کے باوجود) وہ دین سے اس طرح نکل جائیںگے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتاہے۔ پس جہاں بھی ان کو پاؤ، ان کو قتل کردو، کیونکہ ان کو قتل کرنے میں قاتل کے لیے اجر ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) یہ ہے اس فرقے کی ابتدا، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر بھی اعتراض کرنے سے اپنی زبانوں کو نہ روک سکے۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو اہلِ زیغ سے متعلق سورۂ آلِ عمران کی اس آیت کا مصداق قرار دیا۔ حضرت ابوامامہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ’’فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ‘‘ کے متعلق فرمایا کہ: یہ خوارج ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ خارجیوں کا فرقہ بھی اہلِ زیغ میں داخل ہے اور گزشتہ حدیث سے اہلِ زیغ کا ایک بڑا طرزِ عمل معلوم ہوا کہ وہ اہلِ حق علماء ربانیین پر اعتراض وتنقید کرتے ہیں، حتیٰ کہ اس دور کے اہلِ زیغ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر بھی اعتراض سے باز نہ آئے، چنانچہ اس حدیث کی روشنی میں اہلِ زیغ کو پہچاننا بڑا آسان ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر پھیلے ہوئے اہلِ زیغ ہوں یا عوامی جلسوں میں دین کے نام پر تقریر کرکے سادہ لوح عوام کو مغالطہ دینے والے اہلِ زیغ ہوں، ان کی کوئی گفتگو موجودہ وگزشتہ علماء ربانیین پر اعتراض ونکتہ چینی سے خالی نہیں ہوتی۔ ان کے سامعین عملاً اسلامی زندگی سے دور ہوتے ہیں، لیکن شب وروز اہل اللہ وعلماء حق پر تبصروں وتنقیدوں میں مصروف رہتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائے، آمین)۔

امرِ ہفتم: مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل

یہ مضمون بفضلہ تعالیٰ انتہائی دلسوزی اور خیر خواہی کے جذبے سے تحریر کیا گیا ہے، آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں اہلِ زیغ کی ہر سطح پر بھر مار ہے، تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں کو مختلف میڈیاہاؤسز میں پھیلے اہلِ زیغ گمراہ کر رہے ہیں اور سادہ لوح دیہاتیوں کو عوامی جلسوں میں تقریریں کرنے والے اہلِ زیغ گمراہ کر رہے ہیں، چنانچہ مشاہدہ ہے کہ اہلِ زیغ کے فتنوں کا شکار یہ لوگ متشابہات اور غیر ضروری اختلافی مسائل کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، ان کی بیٹھکوں اور مسجدوں میں ان پر مباحثے گرم رہتے ہیں، لیکن ایمانیات اور حدود وفرائض کے بالکل بنیادی مسائل سے بھی لاعلم ہوتے ہیں، اس لیے دردمندانہ اپیل ہے، خدارا سوچئے! ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ ہمیں کس طرف لے جایا جارہا ہے؟ امرِ پنجم میں مذکور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وہ اہم ہدایت ہر وقت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ متشابہات کے پیچھے پڑنے والوں سے دور رہو، اس لیے صرف اور صرف علماء ربانیین کے بیانات سنے جائیں، صرف انہی کی کتابیں پڑھی جائیں، صرف انہی کی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی جائے اور صرف انہی کی مجالس اور جلسوں میں شرکت کی جائے جو متشابہات کے علم کو اللہ کے سپرد کر کے صرف محکمات پر اکتفا کیے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس دور میں بھی علماء ربانیین کی کوئی کمی نہیں ہے۔
مسلمان بھائیو! حق وہدایت کے راستے پر کا ر بندرہنے کے لیے راسخین فی العلم، علماء ربانیین کا دامن تھامے رہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سورۂ آل عمران کی آیت ۸ میں مذکور دعا ’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا‘‘ کا بھی ہر وقت اہتمام کیا جائے، اس دعا کی ماقبل کے ساتھ مناسبت ہے کہ اہلِ زیغ کی فتنہ پردازیوں کا ذکر فرماکر اللہ تعالیٰ نے زیغ سے بچنے کی دعا خود تلقین فرمائی۔ بحث ومباحثہ سے گریز کرکے انابت اور طلبِ حق کی نیت سے یہ دعا مانگی جائے تو ان شاء اللہ! اس کے اثرات ضرور ظاہر ہوںگے۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو توفیق عطا فرمائے، وما علینا إلا البلاغ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین