بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل (چوتھی قسط)

 

گھریلو تشدُّد (روک تھام ا ورتحفظ) کا بل

Domestic violence (prevention and protection)  Bill,2021

(چوتھی قسط)

 

’’(نہم) بیوی کو شوہر کے علاوہ کسی بھی فرد کے ساتھ مقاربت کرنے پر مجبور کر رہا ہو۔‘‘

(الف)     بیوی کے علاوہ بھی خاندان کے کسی رکن کو کسی کے ساتھ ناجائز جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرنا ناجائز ہے،اس میں بیوی کی خصوصیت نہیں۔صرف مقاربت ہی نہیں، بلکہ اس سے ہلکے افعال جیسے دیکھنے اورچھونے پر جبر کرنا بھی حرام ہے۔
(ب)    شوہر کو بھی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت کے ساتھ جنسی فعل پر مجبور کرنا جرم ہے، بلکہ مرد کو مرد کے ساتھ اورعورت کو عورت کے ساتھ تعلق پر مجبورکرنا بھی حرام ہے۔ یہ تمام صورتیں بھی اگرچہ ناجائز ہیں، مگربل کے الفاظ ان کا احاطہ نہیں کرتے ہیں، ان کو داخلِ جرم کرنے کی ضرورت شاید اس لیے محسوس نہیں کی گئی ہے کہ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ناجائز جبرصرف مرد ہی کرتا ہے اورصرف بیوی ہی اس کے جبرواکراہ کا نشانہ بنتی ہے۔
(ج)    زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس دفعہ کو دفع کردیاجائے، کیونکہ ان افعال کی سزائیں دیگر قوانین میں موجود ہیں۔ اگر موجود نہیں ہیں تو صرف اتنے الفاظ مقصد کے بیان کے لیے کافی ہیں کہ ’’کسی کو کسی کے ساتھ ناجائز جنسی فعل پر مجبور کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘
(د)    خاندانی قوانین کے بیان میں اس دفعہ کی ضرورت اس وجہ سے بھی نہیں ہے کہ ہماری روایات میں ایک سخت بدکردار شخص بھی اپنی زوجہ،اولاد اور اقارب کے لیے بدکرداری کو پسند نہیں کرتا ہے، چہ جائیکہ اس کو مجبورکرتا ہو۔

’’(ج) ’’جنسی زیادتی‘‘ میں جنسی نوعیت کا کوئی بھی طرزِ عمل جو کہ نادار شخص یا کسی بھی دیگر شخص کی حرمت کی آبرو ریزی کرتا ہو،تذلیل کرتا ہو،تحقیر کرتا ہو یا بصورتِ دیگر خلاف ورزی کرتا ہو،شامل ہیں ۔‘‘

اس دفعہ میں حددرجہ ابہام ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:
۱:-    اگرفعلِ زنامستوجبِ حد ہو تو دفعہ ۵ ’’جرمِ زنا (نفاذِحدود) آرڈیننس‘‘ کے تحت قابلِ سزا ہے۔ اگر فعل موجبِ تعزیر ہے تو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ۵۰۹ ’’عفت میں دخل اندازی یا جنسی ایذا دہی کا باعث ہونا‘‘ ۔ دفعہ ۳۵۴:’’عورت کی عفت کی بے حرمتی کرنے کے لیے حملہ یا جبر مجرمانہ‘‘، اور دفعہ A۳۵۴ ’’کسی عورت پرمجرمانہ حملہ یا جبر مجرمانہ‘‘ کے تحت قابلِ سزا ہے۔ اگر کوئی اور فعل مراد ہے تو پھر اس کی تعریف وتشریح ضروری تھی۔
۲:-    اگربیوی کے علاوہ کسی پر جنسی حملہ مراد ہے جس میں ایک شخص دوسرے شخص کو اس کی مرضی کے بغیر شہوت سے چھوتا ہےیا ہم بستری سے جڑا کوئی عمل کرتا ہے توشرعاً قابلِ تعزیر جرم ہے، خواہ جنسی حملہ ہم جنس پر ہو یا مخالف جنس پر ہو اورمتضرر شخص کی رضامندی شامل ہو یا شامل نہ ہو۔
۳:-     پڑوسی ملک ہندوستان کی سپریم کورٹ نے قراردیا تھا کہ زنا بالجبر (Rape) کا اطلاق شادی شدہ جوڑوں پر نہیں ہوتا، پھر کیرالہ ہائی کورٹ نے قراردیا کہ بیوی کے جسم کو اپنی ملکیت سمجھنا اور اس کی مرضی کے خلاف اس سےمباشرت کرنا ’’جبراً جنسی عمل‘‘ (Marital Rape) ہے اور اس بنا پر بیوی علیحدگی کامطالبہ کرسکتی ہے۔ بعض مغربی ممالک میں بیوی کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق قائم کرنا قابلِ تعزیر جرم ہے، جسے ازدواجی آبروریزی (Marital Rape) کہا جاتا ہے۔ کچھ ملکوں میں جنسی تشدد سے یہ بھی مراد لیا جاتا ہے کہ عورت جنسی تعلق پرتو رضامند ہو، مگر کسی خاص طرح کے فعل پر راضی نہ ہویا اس کے ساتھ کوئی غیر محفوظ یا ذلت آمیز جنسی عمل کیا جائے یا جب وہ رک جانے کا کہے اور مرد فعل جاری رکھے۔اس طرح کے قوانین کے پیچھے وہی تحریکِ نسواں اور اس کے خیالات اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعرے کارفرما ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس دفعہ کے پیچھے وہی مغربی خیال ہے کہ شوہر بھی بیوی کو جنسی تعلق کے لیے مجبور نہیں کرسکتا ہے۔
اسلام میں زوجین کو ایک دوسرے کے جسم سے لطف اندوز ہونے کا حق ہے۔ قرآنی احکامات اس بارے میں بالکل واضح ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:’’جب وہ پاک ہوجائیں تو آؤ ان کے قریب جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔‘‘ اورارشاد ہے: ’’تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں تو آؤ ان کے پاس جیسے چاہو۔ [البقرۃ:۲۲۳]
احادیث میں جماع کوصدقہ قراردیاگیا ہے،اگر بیوی انکار کرے تواس کےفعل کوباعثِ لعنت کہا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ تنور پر بھی ہو تو اسے شوہر کی جنسی تسکین کرلینی چاہیے ۔
فقہ کی رو سے اگر بیوی نابالغہ ہے مگر اس کی صحتِ جسمانی ایسی ہے کہ جماع کے قابل ہے اور مرض کا اندیشہ نہیں تو اس سے جماع جائز ہے،اگر چہ اس کی عمر نوسال سے کم ہی کیوں نہ ہواور اگر وہ بوجہ لاغری وکمزوری جماع کا تحمل نہ کرسکتی ہواور بیماری کا خدشہ ہو تو اس سے تعلق زن شوئی کا قیام ناجائز ہے،اگر چہ اس کی عمرزیادہ ہو۔ اسی طرح اگر وہ حیض یا نفاس کی حالت میں ہو یا بیمار ہو یا شوہر سوکن کے سامنے اس سے وظیفۂ زوجیت کا مطالبہ کرتا ہو تو اسے انکار کاحق ہے: (دیکھیے: الفتاوی الہنديۃ،ج:۷، ص:۳۸۔ البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج:۳، ص:۱۲۸)

’’(د)’’معاشی استحصال‘‘ میں معاشی یا مالیاتی ذرائع سے دانستہ محرومی یا مذکورہ ذرائع تک رسائی جاری رکھنے میں ممانعت یا پابندی شامل ہے، جس میں متضرر شخص کو فی الوقت نافذالعمل کسی بھی قانون یارسم ورواج کے تحت مستحق کیاگیاہو۔‘‘

۱ :-زوجین ایک دوسرے کے مال پر کس قدر حق رکھتے ہیں؟اس بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ رشتۂ زوجیت کی وجہ سےشوہر کو بیوی کے مال وجائیداد پر اوربیوی کو سوائے نفقہ کے شوہر کے مال پر کوئی استحقاق ثابت نہیں ہوتا، اس لیے اگر زوجین ایک دوسرے کے معاشی ذرائع یا جائیدادپر قابض ہوتے ہیں تو غاصب ٹھہرتے ہیں۔ یہی حال دیگر اعزہ اوراقرباء کابھی ہے کہ اولاد کو والدین سے اوروالدین کو اولادسے اور رشتہ دار کو قریب تر رشتہ دار سے خاص شرائط کے تابع نفقہ ملتا ہے، مگر ملکیت ہر ایک کی جدا ہوتی ہے اور خاندان کا کوئی رکن دوسرے رکن کو اس کی ملکیت سےیا ملکیت سے مستفید ہونے سے محروم نہیں کرسکتا ہے۔ اگر قانون کا دائرہ اس حد تک ہے تو درست ہے اورشریعت اس سے متفق ہے۔
۲:- اس دفعہ کے مطابق کسی کو ایسے مالی حق سے محروم کرنا یا اس میں رکاوٹ بننا جرم ہے، جس کا وہ قانون یا رسم ورواج کی رو سے حق رکھتا ہو۔ یہ دفعہ شرعی پہلو سے اس وقت درست ہوسکتی ہے جب قانون اور رسم ورواج دونوں کے ساتھ یہ اضافہ کیا جائے کہ وہ اسلامی احکام کے منافی نہ ہوں۔ اگر یہ قید نہ بڑھائی جائے تو بسااوقات قانون یا رسم ورواج کے تحت ایک شخص ضرررسیدہ ٹھہرتا ہے، مگر شریعت کی رو سے نہیں ۔ظاہر ہے کہ کسی قانون یا رسم کو شریعت پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے،مثلاً:
الف:- قانون کی رو سےبیوی ملازمت کاحق رکھتی ہے اور شوہر اسے روکنے کا مجاز نہیں ہے، مگر ازروئے شرع شوہر یہ حق رکھتا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے اس بل کی رو سےبیوی کوشوہرکے خلاف چارہ جوئی کرنےاورہرجانہ وصول کرنے کاحق ہوگا، مگرازروئے شرع وہ یہ حق نہیں رکھتی ہے، البتہ شوہر پر اس کی معاشی کفالت واجب ہے۔ 
ب:-شوہر صرف بیرونِ خانہ ہی بیوی کو روکنے کامجاز نہیں ہے، بلکہ وہ اندرونِ خانہ بھی بیوی کوایسی صنعت وحرفت سے روک سکتا ہے جس سے اُسے عار لاحق ہوتی ہویا اس کے حقوق متاثر ہوتے ہوں۔ آگے ان کی تفصیل آتی ہے۔
۳:-اگر لڑکی نابالغہ ہے تو اس کانان ونفقہ باپ پر ہے اور باپ ولی ہونے کی حیثیت سے اسے معاش کے لیے نکلنے سے منع کرنے کا مجاز ہے، کیونکہ لڑکیا ں مردوں کی حریص نگاہوں کا نشانہ بنتی ہیں۔ اگر بالغہ ہے تو وہ خود مختار ہے، مگر فسادِ زمانہ اورمعاشرتی انحطاط کی وجہ سے باپ کو اس پر ولایت ضم حاصل ہے اورباپ اسے اپنے ساتھ سکونت پر مجبور کرسکتا ہے ۔باپ نہ ہو تو دادا اورپھر دیگر اولیاء کو بھی یہ حق حاصل ہے۔اس میں عورت کا معاشی استحصال بھی نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ محتاج ہے تو نکاح ہونے تک اس کی ضروریات کابندوبست باپ اوراس کے بعد قریب تر رشتہ دار پرلازم ہے۔ 
۴:-بیوی اندرونِ خانہ کوئی معاشی سرگرمی رکھتی ہو جس سے شوہر کے حق میں خلل پڑتا ہو یا اسے تکلیف ہوتی ہوتو شوہر اسے روک سکتا ہے،مثلاً:
(۱)    بیوی گھر کے اندر ہی کسی کو کوئی علم یا فن سکھاتی ہو یاگھر کے اندر ہی دست کاری، سلائی، کڑھائی یا کسی اور صنعت میں مشغو ل رہتی ہو، جس سے شوہرکے متعلق ذمہ داریوں میں فرق آتا ہو،
(۲)     یا بیوی کے عمل کی وجہ سے شوہرکو تکلیف ہو تی ہو، مثلاً کام کی بدبو ہو یا گندگی ہو، یا
(۳)     بیوی کے عمل کی وجہ سے اس کی صحت گرتی ہو اور وہ لاغری وکمزوری کا شکارہوتی ہو، یا
 (۴)     جس کام کی وجہ سے اس کے حسن وجمال میں فرق آتا ہو۔ 
(۵)    جو کام فی نفسہ مباح ہو، مگر شوہرکے لیےباعثِ عار ہو،مثلاً پرائے بچے کو دودھ پلاتی ہو، جب کہ وہ معزز خاندان سے ہو،یا
(۶)    بیوی نفقے کی مدمیں سے کچھ بچالیتی ہے، جس سے اس کے جمال میں فرق آتا ہے یا صحت گرتی ہے ۔
ان تمام صورتوں میں شوہر بیوی کو منع کرسکتا ہے اور اگر بیوی نہ مانے تو وہ گناہ گار ہوگی، مگر قانون کی رو سے چونکہ اس کا معاشی نقصان ہے، اس لیے شوہر اسے منع کا حق نہیں رکھتا ہے۔
۵:-عائلی قوانین کی رو سےچچاؤں کی موجودگی میں بھی یتیم پوتا دادا کے مال میں حقِ وراثت رکھتا ہے، مگر کتاب اللہ میں نہیں رکھتا ہے۔
۶:-ہمارے معاشرے میں والد بالغ لڑکوں کی بھی کفالت کرتا ہے، بلکہ بسااوقات اس سمیت بہو اور پوتوں پوتیوں کی بھی کفالت کرتا ہے، مگراسے والد کا احسان اوراسلامی معاشرے کا حسن توکہہ سکتے ہیں، لیکن یہ بیٹے یا اس کے کنبے کا لازمی حق نہیں ہے ۔
۷:-عام طورپر بڑا بیٹا والد کے حین حیات والد کا کاروبار سنبھالتا ہے اوراسی سے اپنی ضروریات بھی پوری کرتا ہے یا والد اس کے اخراجات کاتحمل کرتا ہے، مگر جب تک والد بطورشریک اسے شامل نہ کرے یا معاہدۂ ملازمت کے تحت اسے اجیر نہ رکھے،اس وقت وہ کاروبار کے اثاثوں یا منافع میں کوئی استحقا ق نہیں رکھتا ہے۔ اگر باپ اسے کاروبار سے بے دخل کرتا ہے یا کاروبا ر کے فوائد سے اسے محروم رکھتا ہے تو اسے حقِ دعویٰ نہیں ہے۔
۸:- اولاد میں سے جو مال رکھتے ہوں یا نرینہ اولاد میں سے جو کمانے کے قابل ہوں، ان کے اخراجات باپ کے ذمہ نہیں رہتے ہیں، مگر والد ان کے اخراجات اٹھاتا ہے ۔اگر والد ان کے اخراجات روک دے یا کوئی شخص دور کے کسی رشتہ دار کی کفالت کرتا ہو جو اس کے ساتھ سکونت بھی رکھتا ہو اوراس کے بعد وہ کفالت کا سلسلہ روک دے تو اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔
۹:-اگروالدین تنگ دست ہو ں اور اولاد غنی ہو تو اولاد کا مال والدین کا مال سمجھا جاتا ہے اوراولاد بھی اسے اپنی سعادت سمجھتی ہے، شرعی قانون کی رو سے اگروالدین محتاج ہیں تو اولاد کے مال میں صر ف ضروریات کاحق رکھتے ہیں اورضرورت کے بقدر اولاد کے مال میں سے اولا د کی اجازت کے بغیر بھی وصول کرسکتے ہیں، مگراولاد کا مال ان کا مملوکہ نہیں ہے، کیونکہ ملکیت ہر ایک کی جدا جدا ہے۔
۱۰:-شوہر اپنے اوربیوی کے نام سے جوائنٹ اکاؤنٹ کھولتا ہے اور صرف وہی اس میں اپنا مال جمع کرتا ہے۔ قانون کی رو سے دونوں ہی رقم نکالنے کااستحقاق رکھتے ہیں، مگر شرعاً جمع شدہ رقم شوہر ہی کی ہے۔
۱۱:-ملازمین کو کچھ فنڈز اپنے اہل خانہ میں کسی کے نام کرنے کا حق ہوتا ہے جو ملازم کا صواب دیدی اختیار ہوتا ہے اوراس میں تبدیلی کا بھی حق رکھتا ہے، مگر اس بل کی رو سے اسے حق نہ ہونا چاہیے۔
الغرض ان صورتوں میں قانون اوررسم ورواج کے تحت ایک شخص دوسرےکے مال میں حق رکھتا ہے، مگر شریعت کی رو سے نہیں رکھتا ہے،اس لیے ابتدا میں کہا گیا کہ قانون اوررسم کےساتھ شریعت کی قید بڑھانا ضروری ہے۔

’’توضیحِ دوم : تعین کرنے کی غرض سے کہ آیامسئول الیہ کاکوئی بھی فعل،ترک فعل، ارتکاب یا طرزِ عمل اس دفعہ کے تحت ’’گھریلوتشدد‘‘ کو تشکیل دیتاہے تومعاملےکےتمام ترحقائق اور حالات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا۔‘‘

’’تاتریاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود‘‘ صرف بیانِ حلفی جمع کرانے یا کوئی مواد پیش کرنے کے بعد جب عدالت ذلت آمیز عبوری سزائیں نافذ کردے گی، اس کے بعد اگر حقائق اور حالات کا جائزہ لے بھی لیا جائے تو مدعا علیہ کی تسکین کس طرح ہوگی؟ جب سرِبازار بوڑھے والد کو ایک مرتبہ رسوا کردیا جائے تو پھر حقائق کی چھان بین اس کے لیے معنی نہیں رکھتی۔
افسوس کہ ہماری مقننہ رشتوں کی حساسیت سے ناواقف ہے۔ رشتے دھاگے سے زیادہ کچے اور شیشے سے زیادہ نازک ہوتے ہیں۔ کچے دھاگے گرہ سے پھر کب مضبوط ہوتے ہیں؟ اورشیشے کی دراڑ پڑنے کے بعدپھرکب ختم ہوتی ہے!؟

’’۴:-سزا:    (۱)اگرپی پی سی (PPC) کے تحت آنے والےکسی جرم کا ارتکاب گھریلوتعلق میں کیاگیاہو جرائم قابلِ سزاہوں گے،جیساکہ پی پی سی (PPC) کے تحت فراہم کیے گئے ہیں ۔
(۲) اگر ارتکاب شدہ جرم پی پی سی (PPC) کے تحت نہ آتا ہو تو گھریلو تشدد کے فعل میں زیادہ سے زیادہ تین سال کی مدت کےلیے قیدِ محض کی سزادی جائےگی اوریہ ارتکاب شدہ گھریلو تشددکے فعل کی کثافت پر انحصار کرتے ہوئے چھ ماہ سے کم نہ ہوگی، اور ایک لاکھ روپے جرمانہ اور کم سے کم بیس ہزار روپے متضرر شخص کو تلافی کے طور پر بھی ادا کیا جائے گا۔
(۳)جرمانے کی ادائیگی سے قاصر ہونے پرعدالت تین ماہ کی قید ِمحض دے سکےگی۔
(۴) جو کوئی بھی گھریلو تشدد کے جرم کے ارتکاب کرنے میں مدد یا اعانت کرتا ہو تو جرم کی بابت فراہم کردہ اسی سزا کا مستوجب ہوگا۔
۱۲:- مسئول الیہ کی جانب سے عبوری یا حکمِ تحفظ کی خلاف ورزی پر تعزیر:
(۱) مسئول الیہ کی جانب سے حکمِ تحفظ یا عبوری حکم یا حکمِ رہائش یا حکمِ تحویل کی خلاف ورزی ایک جرم ہوگی جو ایک سال تک سزائے قید اور مع ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا مستوجب ہوگا جو کہ متضرر شخص کو ادا کیا جائے گا۔‘‘

اس بل میں دو قسم کی سزاؤں کاذکر ہے: ایک وہ سزائیں ہیں جو عبوری اورعارضی ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے جو حتمی اورقطعی ہیں اور سماعت کے اختتام پر عدالت صادر کرتی ہے۔ اس دوسری قسم میں درج ذیل سزائیں شامل ہیں:
۱:-    اگر جرم تعزیراتِ پاکستان کے تحت قابلِ سزا ہو تو اسی کے تحت سزا دی جائے گی۔
۲:-     کم ازکم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ تین سال قیدِ محض ہوگی، ایک لاکھ جرمانہ ہوگا اور اس سے قاصر رہنے کی صورت میں تین ماہ مزید قیدِ محض بھگتنا ہوگی۔ بیس ہزار زرِ تلافی کی صورت میں متضرر شخص کو ادا کرنا ہوں گے۔
۳:-    جرم میں معاونت کرنے والے کی بھی یہی سزا ہوگی۔
۴:-    عارضی احکامات کی خلاف ورزی پر ایک سال قید اور ایک لاکھ جرمانہ ہوگا جو متضرر کو ادا کیا جائے گا۔ [دفعہ ۱۲(۱)]
دوسری قسم عارضی سزاؤں کی ہے۔عارضی سزائیں وہ ہیں جو عدالت قانونی چارہ جوئی کے درمیان اور قطعی فیصلہ کرنے سے پہلے جاری کرسکتی ہے،ان کا حاصل چارسزائیں ہیں:
۱:    احکامِ تحفظ    (Protection orders)
۲:    حکمِ رہائش    (Residence orders)
۳:    مالی امداد        (Monetary relief)
۴:    تحویلی احکامات    (Custody orders)
ان سزاؤں پر تبصرے سے پہلے کچھ اصولی نکات کا بیان ضروری ہے:
۱:-    سزاؤ ں کا تعلق قانونِ فوجداری سے ہے ۔ اسلامی اورمغربی قانونِ فوجداری میں صرف جزئیات کا نہیں ، بلکہ اصولوں کا اختلاف ہے۔ اصولوں کے اختلاف کی وجہ سے ممکن نہیں ہے کہ جزئیات میں اختلاف نہ ہو۔
۲:-    سزا جرم پر ہوتی ہے مگرجب کوئی فعل یا ترکِ فعل جرم نہ ہو تو اس پر سزانہیں دی جاسکتی۔ اس بل میں جرم کی تعریف میں بہت سےایسے افعال کو شامل کیا گیا ہے جو شرعاً وعقلاً جرم نہیں قرار دئیے جاسکتے، جیسا کہ جذباتی، جنسی، نفسیاتی اور مالی تشدد پر تبصرہ کرتے ہوئے گزرچکا ہے۔
۳:-    اصولِ قانون میں اختلاف کےباوجود شرعی اورمغربی نظامہائے قانون اس پر متفق ہیں کہ جرم اورسزا میں توازن ہونا چاہیے، مگر اس بل میں توازن اوراعتدال کے اصول کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔
۴:-    جو افعال جرم نہیں ان میں سزا کے نفاذ کے وقت یہ بل بعض بنیادی حقوق کو بھی سلب کردیتا ہے، جس کی تفصیل بل کی تمہیدکا جائزہ لیتے وقت گزرچکی ہے۔
۵:-    اس بل میں قطعی اورحتمی سزائیں تو جرمانہ اورقید ہے، مگرعبوری سزائیں کئی پہلوؤں سے قطعی سزا ؤں سے زیادہ سخت ہیں، کیونکہ ایک تو تعداد میں زیادہ ہیں، دوسرے ہمہ جہت اورہمہ پہلو ہیں ، مثلاًمالی ومعاشی ،سماجی ومعاشرتی،نفسیاتی وذہنی وغیرہ۔تیسرے ملزم کو رسوا کرکے رکھ دیتی ہیں،اس پہلو سے انسانیت سوز اورذلت آمیز بھی ہیں اورہماری مسلمہ اسلامی اورمعاشرتی اقدارکو پامال کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ ان عبوری سزاؤں میں سے بعض ایسی ہیں کہ مدعی (شکایت کنندہ ) کی اجازت کے بغیر اٹھائی نہیں جاسکتی ہیں۔
۶:-    اگراس بل میں جرم اورسزا کا تقابل کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رائی کا پربت اوربات کا بتنگڑ بنایا گیا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر افعال ایسے ہیں جو یا تو جرم ہی نہیں ہیں یا اتنے بڑے جرائم نہیں ہیں کہ ان پر اس قدر سزائیں دی جائیں یا ان کے لیے اتنا بڑا نظام قائم کیا جائے اور جو جرائم ہیں ان کے لیے دیگر قوانین میں سزائیں موجود ہیں۔

’’۶:-گھرمیں رہنے کاحق :    (۱)فی الوقت نافذ العمل کسی بھی دیگرقانون میں شامل کسی امر کے باوصف، متضررشخص کوحق حاصل ہوگا کہ شراکت شدہ گھر میں رہے ،خواہ متضرر شخص اس میں کوئی حق ،حقیت یا حقِ استفادہ رکھتاہویانہ ہو۔
(۲)متضرر شخص گھر میں ،یاعدالتی حکم کے تحت مالیاتی وسائل کے مطابق مسئول الیہ کی جانب سے انتظام کی گئی متبادل رہائش گاہ میں ،یاکسی بھی سروس فراہم کنندہ کی جانب سے انتظام شدہ پناہ گاہ میں رہنے کی بابت چناؤ کرسکے گا۔‘‘

ذیلی شق (۱) کے تحت اگر چہ متضرر اس گھرمیں کوئی حق نہ رکھتا ہو اورکسی اورنافذالعمل قانون کے تحت اسےنکالاجاسکتا ہو۔ اس کے ساتھ دوسری ذیلی شق کو ملانے سے حاصل یہ بنتا ہے کہ متضرر کو تین مقامات میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق ہوگا:
۱:وہ گھر جس میں جرم وقوع پذیر ہوا ہے،اگرچہ مدعی اس میں کوئی حق نہ رکھتا ہو۔
۲:وہ متبادل رہائش گاہ جس کا انتظام مدعا علیہ کرکے دے۔ 
۳:حکومتی پناہ گاہ/دارالامان/شیلٹرہوم
اس سے جوخرابیاں لازم آئیں گی وہ کچھ اس نوع کی ہوں گی:
۱:-    اگر گھر ملزم کا ہوتو یہ دفعہ اس کومزید طیش اوراشتعال دلانے کاسبب بنے گی، یعنی متضرر کو گھر میں رہنے کا حق دیناگویامزید تشدد کو دعوت دینا ہے۔ اس طرح بجائے ختم ہونے کے مزیدگھریلو جھگڑے جنم لیں گے۔
۲:-    اگرمتضرر کوئی ایسا شخص ہو جواس گھر میں حقِ سکونت ہی نہ رکھتا ہو، مثلاً:
 سوتیلی یا رضاعی اولاد ،یا 
اپنی یا اولاد کے سسرالی رشتہ دار، یا
 مطلقہ جس کی عدت بھی گزرچکی ہو۔
الغرض ایسے رشتہ دار جن کو شرعی قانونِ نفقہ کے تحت رہائش دینا مدعا علیہ پر واجب نہ ہو،ان کو اس گھر میں ٹھہرائے رکھنا خود مدعا علیہ کا استحصال ہے۔
۳:-    مکان جس کا مملوکہ ہے وہ اس میں حقِ تصرف بھی رکھتا ہے، چنانچہ مالک کسی شخص کو بے دخل کرسکتا ہے، مگر یہ دفعہ اس کے حقِ تصرف پر قدغن عائد کرتی ہے۔
۴:-    اگرمتاثرہ فریق کسی کے زیرِ حضانت یاکفالت ہو اورکفالت کنندہ یا حضانت کنندہ کے علاوہ کوئی اور اس پر تشدد کرے یا متاثرہ شخص کسی کی بیوی ہو اورشوہر کے علاوہ کوئی اس پر تشدد کرے تو زیرِ کفالت شخص کی رہائش کا فیصلہ کفالت کنندہ کا حق ہے اور بیوی کی سکونت کے بارے میں شوہر کا قول حرفِ اخیر ہے، مگرمجوزہ بل متاثرہ فریق کو تین جگہوں میں حقِ انتخاب دیتا ہے۔
۵:-    اگرمتضرر خو دناجائزقابض ہویا اس نے گھرانے میں مداخلت بے جا کی ہو تو دیگر قوانین کی رو سے اسے فوری بے دخل ہوجانا چاہیے، مگر یہ دفعہ اس کے قبضے کو استقرار بخشتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ خود ملزم کو اس گھر سے بے دخل ہونا ہوگا، جیسا کہ آمدہ دفعہ میں قراردیا گیا ہے۔ اس سے جو خرابیاں پیدا ہوں گی ،ان کاتصور مشکل نہیں ہے۔
۶:-    متبادل رہائش گاہ کا بندوبست بھی کوئی سہل امر نہیں ہے، لیکن چونکہ متضرر کو اس کے انتخاب کا حق ہے، اس لیے سرکش اورباغی طبائع بے روک آزادی کے لیے یا سرپرستوں کوزچ کرنے کےلیے ایک حیلے کے طورپر اس کا استعمال کریں گی۔ 
۷:-    متضررپناہ گاہ کا بھی انتخاب کرسکتا ہے۔ چاروں صوبوں میں اس نوع کے قوانین صرف زیرِغورنہیں بلکہ نافذ ہوچکے ہیں، وہاں پناہ گاہوں، اولڈ ایج ہومز، کیئرہاؤسس وغیرہ کی تعداد کتنی ہے؟ اور وہاں کا ماحول کتنا پاکیزہ ہے؟دارالامان میں عورت کس قدر مامون رہتی ہے؟ اگر اخباری اطلاعات سے صرفِ نظرکرتے ہوئے حسنِ ظن سے کام لیاجائے اورفرض کیاجائے کہ وہاں یورپ جیسی سہولیات میسر ہیں توخود یورپ کے عقلاء کیئرہاؤسز، اولڈ ایج ہومز اور پناہ گاہوں کے سماجی نقصانات کے بارے میں کن نتائج پر پہنچے ہیں، وہ بھی مدِنظر رکھنے چاہئیں ۔
۸:-    ان حقائق کی روشنی میں اس بل کے حوالے سے یہ کہنادرست ہے کہ اسےجنون کی حد تک اصرار ہے کہ متضررکوبہرصورت اجنبی لوگوں ،اجنبی ماحول اوراجنبی جگہ میں رکھنا ہے، اسے خاندان سے بہرصورت کاٹ کررکھنا ہے،ہر ایسا راستہ بند رکھنا ہے جس سے جوڑکی کوئی صورت پیدا ہوتی ہو ۔

’’۷:-حکم عارضی دینے کااختیار:    (۱)عدالت ،اس ایکٹ کے تحت کسی بھی کارروائی میں درخواست دینے کے کسی بھی وقت اورمرحلے پرایسا حکم عارضی صادر کرسکے گی، جسے وہ منصفانہ اورمناسب سمجھے۔
(۲)اگرعدالت کواطمینان ہوکہ درخواست میں بادی النظری ظاہر ہوتاہے کہ مسئول الیہ گھریلو تشدد کے فعل کاارتکاب کرچکا ہے یایہ کہ یہ قرینِ قیاس ہو کہ مسئول الیہ گھریلوتشدد کے فعل کاارتکاب کرسکتاہے،تو وہ عدالت کے روبرو رکھے گئےمتضرر شخص کے حلف نامے یاکسی بھی دیگر شہادت یامواد کی بنا پر حکم جاری کرسکے گی، جیسا کہ مسئول الیہ کے خلاف دفعات ۸، ۹ اور۱۰ کے تحت فراہم کیاگیاہے۔‘‘

حکمِ عارضی سے مراد یہ ہے کہ عدالت قانونی چارہ جوئی کے درمیان اور قطعی فیصلہ کرنے سے پہلے کوئی حکم جاری کرسکتی ہے۔
۱:-    ذیلی شق (۱) میں عدالت کو صوابدیدی اختیار دیا گیا ہے کہ جیسے وہ مناسب اور منصفانہ سمجھے حکم جاری کرسکتی ہے۔ اب جج کے ذہن میں کیا ہے؟ وہ کس طبیعت کا مالک ہے؟ اور وہ کیا قرینِ مصلحت سمجھتا ہے؟ یہ ملزم کی قسمت پر ہے۔
عدالت سزا دینے میں بے جا سختی یا نرمی کا شکار نہ ہو، اس لیے قانون میں سزا اور اس کی حداقل اور اکثر کی تصریح کردی جاتی ہے، تاکہ جج افراط وتفریط کا شکار نہ ہو، مگراس شق میں اس کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ بطورتفنن عرض ہے کہ جس قدر سزائیں اس بل میں تجویز کی گئی ہیں، اس کے بعد کوئی نئی سزا تجویز کرنے میں عدالت کو کافی ذہنی توانائی صرف کرنا ہوگی۔ 
۲:-    ذیلی دفعہ (۲) میں حکمِ عارضی کی بنیادوں کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ مدعی کا حلف نامہ یا کوئی شہادت یا مواد ہوسکتا ہے۔ مدعی کے ذمہ گواہان یا ٹھوس ثبوت کا پیش کرنا ہوتا ہے، محض حلف نامے پر اس نوع کی سزاؤں کانفاذ جو اس بل میں درج ہیں انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
۳:-    تسلیم کہ شہادت سے مراد دوعادل گواہ ہیں جو تزکیۃ الشہود کے معیار پربھی پورے اُترتے ہیں۔ اقرار کہ مواد بھی ٹھوس اورقطعی ہے جو قرینہ قطعیہ کا ہم پلہ ہے۔ اعتراف کہ حلف نامہ بھی مبنی برصدق ہے، مگر پھر بھی یکطرفہ موقف ہے۔صرف یکطرفہ کارروائی کو ثبوتِ جرم کے برابر قرار دینا اور اس بنا پر ملزم کے ساتھ مجرم جیسا سلوک کرنا شریعت اورقانون کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ پھر اگرمدعی کا حلف نامہ تسلیم ہے تو مدعا علیہ کا کیوں نہیں؟ جب کہ حلف اُٹھانا مدعی کے ذمہ نہیں، بلکہ مدعا علیہ کافریضہ ہے۔
۴:-prima facie (بادی النظر ) کے اصول کا استعمال بایں معنی درست نہیں معلوم ہوتا کہ مقررہ سزائیں دوررس اثرات کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ اگرعدالت کی نظر میں قرینِ قیاس ہو کہ جرم کا وقوع ہونے والا ہے توعدالت انسدادی احکامات صادر کرسکتی ہے، مگربل کی سب سزائیں انسدادی نوعیت کی نہیں ہیں۔ اس سے زیادہ اہم وہ وجوہات ہیں جن سے عدالت قیاس قائم کرتی ہے۔
بہرحال اگر عدالت کی نظر میں محض درخواست سے ظاہر ہو کہ تشددکا ارتکاب ہوا ہے یا اس کاامکان ہے توحکم صادر کرسکتی ہے کہ:

’’۸:-احکامِ تحفظ اوراحکامِ رہائش:         (۱)عدالت اطمینان کے طور پر کہ گھریلو تشدد بادی النظری میں ایسے مقام پرہواہے یاایسے مقام پر ہونے کاامکان ہے تومتضررشخص کے حق میں حکمِ تحفظ صادر کرسکےگی اورمسئول الیہ کوہدایت دےسکےگی کہ:
(الف)مزید گھریلوتشدد کے کسی بھی فعل کاارتکاب نہ کرے۔
(ب) متضررشخص کے ساتھ -اعتراضات کے ساتھ یابغیر-کسی بھی شکل میں یاطریقہ کار میں بشمول ذاتی، زبانی یاتحریری، الیکٹرانک یاٹیلی فونک یامتحرک ٹیلی فون کے نظام سے کوئی بھی باہمی رابطہ نہ رکھے ۔ 
(ج) متضرر شخص سے اعتراضات کے ساتھ یا بغیر دور رہے ۔‘‘

مطلب یہ ہےکہ کسی بھی نوعیت کا اورکسی بھی جہت سے اورکسی بھی ذریعے اوروسیلے سے رابطہ نہ رکھے۔ سوال یہ ہے کہ:
۱:-     جب اس بل کی دفعہ ۱۲(۲) کے تحت جرم قابلِ ضمانت اور قابلِ راضی نامہ ہے تو رابطہ نہ ہونے سے راضی نامہ کیسے ہوگا؟ 
۲:-    اس گمان کے پیچھے کیا ٹھوس حقائق ہیں کہ مدعا علیہ مزید تشدد کی نیت سے ہی متضرر کے قریب جاناچاہتا ہے۔ اگر وہ صلح وصفائی اورمعافی ودرگزر کی نیت سے جانا چاہتا ہے تو قانون اس میں حائل کیوں ہوتا ہے؟
۳:-    اگر متضرر کی ناراضگی کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہے تورابطہ کیے بغیر وہ کیسے دورہوگی؟
۴:-     اگرمدعا علیہ کسی اہم تر شرعی یا قانونی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے رابطہ کرنا چاہے تو اس کی ممانعت کیوں ہے؟
۴:-    بل کا موضوع خاندان کے ارکان ہیں۔ آخر زوجین کو، اولاد اوروالدین کو،بھائی اور بہن کو، بھتیجوں اور چچاؤں کو، بھانجوں اورخالہ ماموں کو، پوتوں کو دادا اور دادی سے اورنواسوں کونانا اور نانی سے بات یا ملاقات سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ قطع تعلقی تو عام مسلمان کیسے ساتھ بھی جائز نہیں اور رشتہ داروں کے ساتھ تو اوربری اورقطع رحمی میں داخل ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ احکامِ تحفظ کی دفعات مصالحت کے بجائے مخاصمت ، جوڑ کے بجائے توڑ، اصلاح کے بجائے خرابی، تقریب کے بجائے تفریق اور صلہ رحمی کے بجائے قطع رحمی پیدا کرتی ہیں۔

’’(د) متضرر شخص سے ایسے فاصلے پر رہے، جیسا کہ عدالت مقدمے کے مخصوص حقائق اور حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے تعین کرے :‘‘

۱:-    فاصلے کا کوئی تعین نہیں ہے جو قریب اور دور ہوسکتا ہے۔ اگر مدعا علیہ کو شہر بدر کردیا جائے تو قانون کے اطلاق میں اس کی گنجائش ہے۔ اگر فاصلہ قریب کا بھی ہو تو آزادانہ نقل وحرکت پر پابندی ضرور ہے۔
۲:-    ساس اورسوکن کی اَن بن مشہور ہے اور ماں، بیٹی اور بہنیں بھی آپس میں لڑپڑتی ہیں، کیونکہ برتن قریب ہوں تو کھنکنے کی آواز آہی جاتی ہے۔ اب اگر مقدمۂ خاتون برخلاف خاتون کا ہو تو کیا مدعیہ کو شیلٹر ہوم بھیجا جائے گا اور مدعا علیہا کو خانہ بدر کیا جائے گا؟ اگر ان کے سات چھوٹے بچے بھی ہوئے تو وہ ہمراہ ہوں گے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پرورش اورتربیت بچوں کا شرعی اورقانونی حق ہے جس سے انہیں محروم کیا جارہا ہے اوراگر ہوں گے توگھر کا ساسکون اور سہولیات اُن کو کون فراہم کرے گا؟ اوران کی تعلیم اور دیگر ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی؟
۳:-    فرض کیجیے کہ رحم دل منصف نہ کسی کو دارالامان بھیجتا ہے اور نہ ہی کسی کو خانہ بدر کرتا ہے، بلکہ فاصلہ رکھنے کا حکم صادر کردیتا ہے تو چھوٹے چھوٹے گھروں میں ایک خاتون دوسری خاتون سے کتنے فاصلے پر رہے گی؟
بلکہ ان کی خامیوں کےجواب میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ عدالت کو کسی فریق کو استثنا دینے کا حق ہے، کیونکہ دفعہ کا تعلق عبوری حکم سے ہے جو ایمرجنسی قسم کا ریلیف ہے اور مدعا علیہ کو ابھی سماعت کا موقع ہی نہیں دیا گیا ہے۔

’’(ہ) کسی بھی پُر تشدد فعل کے لیے یا جس کے پُر تشدد ہونے کا امکان جو متضرر شخص کی زندگی، حرمت یا شہرت کو خطرے میں ڈال سکتاہو کے لیے اسے GPS  ٹریکر پائل یا کلائی کڑا پہنایا جائے،اور .....۔‘‘

۱:-    یعنی مرد وں کو چوڑی یا پازیب نما زیور پہنا یا جائے گا۔ ٹریکر کو چوڑی اور پازیب سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ شے مردوں کے لیے ذلت آمیز ہے۔ کیا بیوی کو طلاق کی دھمکی یا تہذیبِ نفس کے لیے اس کی تادیب اتنا سنگین جرم ہے کہ شوہر کو انتہائی خطرناک مجرموں والا کڑا پہنادیا جائے؟ تعزیراتِ پاکستان کی رو سے اگر کوئی کسی کا سرپھاڑ دے یا پیٹ چیردے پھر بھی اسےمزید جرم سے باز رکھنے کے لیے یہ سزا نہیں دی جاتی۔ یہاں تووہ مجرم بھی نہیں بلکہ ملزم ہے اورالزام صرف اس قدر ہے کہ رات باہر گزارنے پر بیٹی سے پوچھتا ہے اور الزام بھی محض الزام ہے، عدالتی ثبوت اس کا نہیں، بلکہ یک طرفہ دعویٰ ہے اور عدالت کے نزدیک بھی جرم ثابت نہیں ، بلکہ زمانہ آئندہ میں اس کااحتمال ہے، مگر قانون ساز اسے ہتھکڑی یا بیڑی پہنارہے ہیں۔

بسوخت عقل زِ حیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است

شریعتِ اسلامی توہین آمیز سزاؤں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ تادیباًجھاڑو سے یا چپل سے مارنا خصوصاً سرپر سزا دینا ممنوع ہے کہ انتہائی ہتک آمیز ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی ذلت آمیز سزاؤں کی ممانعت کرتا ہے ۔
عزت اورذلت کامعیار معاشروں میں مختلف ہوتا ہے ۔ہماری روایات اورثقافت میں خانگی   چپقلش پر خاندان کے معززرکن یابزرگ کو یہ سزادینا یقیناً توہین آمیز ا ورمقدس رشتوں کی تذلیل ہے۔ 

(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین