بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

 کرپٹو کرنسی، این ایف ٹی، اور بلاک چین  تعارف، مغالطے، شرعی نقطۂ نظراور ہماری ذمہ داری (دوسری قسط)


 کرپٹو کرنسی، این ایف ٹی، اور بلاک چین 

تعارف، مغالطے، شرعی نقطۂ نظراور ہماری ذمہ داری

(دوسری قسط)

 

تصویر نمبر۳: بلاک چین کے نظام میں پیسے بھیجنے کا طریقہ کار

 

تصویر نمبر ۳ کے اندر بلاک چین کے ذریعے سے زید اور بکر کے درمیان پیسوں کی منتقلی کو دکھایا جارہا ہے۔ اس تصویر میں آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ درمیان میں کوئی بھی حکومت یا سینٹرل بینک موجود نہیں ہے۔ اب جبکہ زید نے بکر کو پیسوں کی منتقلی کرنی ہے تو کوئی بھی گارنٹی دینے والا موجود نہیں ہے۔ تو اس طریقے سےپیسوں کی منتقلی کو ممکن بنانے کے لیے بلاک چین کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر کمپیوٹر کے پاس کھاتے کی مکمل کاپی موجود ہوگی۔ اب اس بلاک چین کے نظام کے تحت جب زید بکر کو پیسے بھیجے گا تو زیداپنے کھاتے میں اس کا اندراج کرلے گا کہ ۱۰۰۰ روپے اس کے کھاتے سے نکل گئے ہیں اور بکر کے نام کے آگے اندراج کرلے گا کہ اب بکر کے پاس ۱۰۰۰ روپے موجود ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس مکمل کھاتے کی کاپی تو دنیا میں ہرکمپیوٹر کے پاس موجود ہے تو وہ سارے کمپیوٹر کیسے اپنے کھاتوں کو اپ ڈیٹ کریں گے کہ زید نے بکر کو ۱۰۰۰ روپے بھیجے ہیں؟دوسری بات یہ ہے کہ جب ہر کسی کے پاس مکمل کھاتے کی کاپی موجود ہے تو ہر کوئی جو چاہے اپنے کھاتے میں لکھ دے کہ اس کے پاس اتنے پیسے موجود ہیں۔ تو اب کیسے یہ بھروسہ قائم ہوگا؟ اور کیسے کھاتوں میں صحیح اندراج ہوگا؟ اس کے لیے بلاک چین کے اندر مائننگ Mining کے طریقہ کار کو واضح کیا گیا ہے۔ 
جب زید نے بکر کو ۱۰۰۰ روپے بھیجے تو یہ ایک ٹرانزیکشن کہلائے گی۔ اب یہ ٹرانزیکشن میم پول Mempool میں رکھ لی جائے گی۔ اسی طریقے سے کافی سارے لوگ باہم ٹرانزیکشن کریں گے اور وہ سب بھی میم پول کے اندر جمع ہوتی رہیں گی۔ پھر کوئی بھی کمپیوٹر جو کہ بلاک چین نیٹ ورک کا حصہ ہو، دنیا کے کسی بھی حصہ سے مائننگ پراسس میں حصہ لے گا اور ان تمام ٹرانزیکشن کو جمع کرے گا اور ریاضی کا ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرے گا جس کو ہم کرپٹوگرافک پزل Cryptographic Puzzle کا نام دیتے ہیں۔ اس مائننگ پراسس کے اندر پروف آف ورک Proof of Work (PoW) نامی الگوریتھم کام کرتا ہے جو کہ ایک Consensus پروٹوکول ہے، جو کہ اتفاقِ رائے قائم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے یا آسان الفاظ میں اس کی مدد سے بلاک چین میں شامل تمام کمپیوٹرز باہمی اتفاق سے کھاتے کے اندر نئی ٹرانزیکشن کا اندراج کرتے ہیں ۔ یہاں پر یہ بات ذہن میں رہے کہ گو کہ ہر کوئی مائننگ پراسس میں حصہ لے سکتا ہے، مگر کھربوں احتمالات میں سے ایک احتمال ہے کہ کوئی ایک اس کرپٹوگرافگ پزل یعنی ریاضی کے مسئلہ کو فوراً حل کردے۔ جو بھی کمپیوٹر اس کو حل کرے گا، اس کو اس بات کا اختیار دیا جائے گا کہ وہ میم پول میں موجود ٹرانزیکشن کو اکھٹا کرکے، ان کا ایک بلاک بنا کر بلاک چین یعنی عوامی کھاتے کا حصہ بنا دے۔ جب وہ یہ مائننگ پراسس یعنی کرپٹوگرافک پزل کو حل کردے گا تو وہ تمام بلاک چین کے نیٹ ورک میں موجود کمپیوٹرز کو بتا دے گا کہ آپ اپنے کمپیوٹرز میں موجود کھاتوں میں اس نئے بلاک کو شامل کرلیں جس کے اندر کھاتے کی نئی شکل موجود ہے، یعنی نئی ہونے والی تمام ٹرانزیکشن کا ریکارڈ موجود ہے اور انہی ٹرانزیکشن میں زید کے بکر کو دیئے گئے پیسوں کی ٹرانزیکشن بھی شامل ہے۔ اور اس سارے مرحلے میں تقریباً ۱۰ منٹ لگیں گے (یہاں پر ہم نے بٹ کوائن کے لحاظ سے ۱۰ منٹ لکھے ہیں )۔ اب چونکہ یہ مائننگ پراسس یعنی ریاضی کا مسئلہ بہت مشکل سے حل ہوتا ہے، یعنی اس کے لیے بہت ہی طاقتور کمپیوٹرز کا استعمال ہوتا ہے اور اس کو حل کرنا ہوتا ہے تو اس سے بے تحاشہ بجلی خرچ ہوتی ہے۔ تو کوئی کیوں اتنی زیادہ بجلی خرچ کرکے مائننگ پراسس کا حصہ بنے؟ تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کہ بلاک چین نیٹ ورک چلتا رہے، بلاک چین بنانے والوں نے یہ حل نکالا کہ جو بھی یہ کرپٹوگرافک پزل حل کرے گا، یعنی مائننگ میں کامیاب ہوگا تو اس کو نئی کرنسی مل جائے گی، جس کو ہم منٹنگ Minting بھی کہتے ہیں۔ ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کوئی بھی کمپیوٹر اس مائننگ پراسس کو حل کرتا ہے اور اس حل کرنے کے نتیجے میں اس کو ۵۰ روپے مل جائیں گے۔ اس طرح سے بلاک چین کے اندر (یہاں پر ہم بٹ کوائن کی بات کررہے ہیں) نئی کرپٹو کرنسی بنتی ہے۔ اب یہ جو نئی کرنسی بنی ہے، اس کا اندراج اس مائننگ پراسس یعنی کرپٹوگرافک پزل حل کرنے والے کے نام پر بلاک چین کے کھاتے میں اندراج ہوجائے گا۔ اس طریقے سے بلاک چین نیٹ ورک میں پیسوں کی منتقلی ہوتی ہے اور بھروسہ پیدا کیا جاتا ہے اور کھاتوں کے اندراج کو تمام کمپیوٹرز میں اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ 
اب ہم بٹ کوائن کرپٹو کرنسی کی خاص طور پر بات کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے یہ بات آئی کہ مائننگ پراسس کے ذریعے سے نئی کرپٹو کرنسی جیسا کہ بٹ کوائن وجود میں آتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں یہ دیکھنےمیں آتا ہے کہ مائننگ پراسس میں شامل ہونے کے لیے ہر کوئی کوشش کرتا ہے۔ بٹ کوائن کی تناظر میں مائننگ فیس کچھ عرصے بعد آدھی ہو جاتی ہے، مثلاً کچھ عرصے پہلے مائننگ کرنے پر  12.5 BTC ملتےتھے اور آج کل  6.25 BTCملتے ہیں اور آج مورخہ ۱۴ ؍جون ۲۰۲۲ ء کو  6.25 BTC بٹ کوائن تقریباً دو کڑور اٹھاسی لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جس کے وجہ سے دنیا بھر سے لوگ جوق در جوق بٹ کوائن مائننگ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ذریعے سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے مائننگ پولز Mining Pools دنیا میں وجود میں آئے۔ مائننگ پولز کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پاس ایک طاقتور کمپیوٹر ہے، پھر آپ اس مائننگ پول کمپنی کا حصہ بن جائیں گے اور وہ آپ کے وسائل (کمپیوٹر وغیرہ) کا استعمال کرتے ہوئے مائننگ کرے گی اور اس مائننگ سے وہ نئی کرنسی بنائے گی اور اس میں آپ کو بھی حصہ دے گی۔ 

مختلف اقسام کے بلاک چین سسٹم

ہمارے پاس تین مختلف اقسام کے بلاک چین سسٹم موجود ہیں جن میں پبلکPublic، پرائیویٹ Private، اور کنسورشیم Consortium بلاک چین ہیں اور انہی اقسام کی بنیاد پر اس بات کا فیصلہ ہوتا ہے کہ کس بلاک چین نظام میں کتنے حد تک سینٹرل کمپیوٹر یا ادارے کا کنٹرول ہے۔ پبلک بلاک چین کے اندر کھاتے عوامی سطح پر موجود ہوتے ہیں اور ان کو کوئی بھی دنیا کے کسی بھی کونے سے دیکھ سکتا ہے۔ اس کی مثال بٹ کوائن اور ایتھریم کرپٹوکرنسی کے کھاتے ہیں۔ اس طرح کی بلاک چین کو پرمیشن لیس بلاک چین بھی کہا جاتا ہے اور یہ پوری طرح سے ڈی سینٹرلائزڈ ہوتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس پرائیویٹ بلاک چین ہوتی ہے، جس کے اندر موجود ریکارڈ کو ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا اور یہ پوری طرح سینٹرلائزڈ ہوتی ہیں۔ پبلک اور پرائیوٹ کے بیچ میں کنسورشیم بلاک چین ہوتی ہے، جس کے اندر کچھ ادارے مل کر بلاک چین کو کنٹرول کرتے ہیں، مثلاً کچھ آٹوموبائل کمپنیاں مل جائیں اور بلاک چین کا گاڑیوں کا نظام بنائیں۔ اب یہ بلاک چین‘ پبلک اور پرائیویٹ بلاک چین کےبین بین ہوگی ۔ اپنی خصوصیات کے اعتبار سے پرائیویٹ اور کنسورشیم بلاک چین پرمیشنڈ بلاک چین کے زمرے میں آتی ہیں۔ 

بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم کی خصوصیات اور تقابل

بلاک چین ٹیکنالوجی ہو یا ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم، دونوں ہی کا کام ڈیٹا یعنی اعداد و شمار اور ریکارڈ کو محفوظ کرنا ہے۔ البتہ دونوں کی کچھ خاص خصوصیات ہیں، جن کی بنیاد پر ہم ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کس موقع پر ہم بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے اور کس موقع پر ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم کا استعمال مفید ہوگا۔[1] ٹیبل نمبر ۱ کے اندر ہم نے یہ خصوصیات اور فرق ظاہر کیے ہیں۔ 

بلاک چین ٹیکنالوجی Blockchain 

ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹم DBMS 

اس کے نظام کو کوئی سینٹرل کمپیوٹر یا ادارے کنٹرول نہیں کرتے۔

اس کو عمومی طور پر سینٹرل کمپیوٹر یا ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔ 

اس کے اندر تمام کمپیوٹرز پر لیجر (کھاتے) کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے۔

اس کے اندر صرف سینڑل کمپیوٹر کے پاس تمام ریکارڈ ہوتا ہے۔ 

اس کے اندر ریکارڈ کی تبدیلی کے لیے اتفاق رائے سے تبدیلی کی جاتی ہےیعنی Consensus Algorithm  کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کے اندر ریکارڈ کی تبدیلی کے لیے سینٹرل کمپیوٹر کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ 

اس کے اندرعوامی سطح پر ہر کوئی ریکارڈ کو دیکھ سکتا ہے۔

اجازت شدہ لوگوں کو ہی ریکارڈ دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ 

اس کے اندر ہیشنگ Hashing کا استعمال بہت ساری جگہوں پر ہوتا ہے۔

اس کے اندر ہیشنگ کا استعمال نہیں ہوتا۔ 

اس میں’’ پبلک پرائیویٹ کی‘‘ Public Private Key کا استعمال ہوتا ہے۔ 

اس میں ’’پبلک پرائیوٹ کی‘‘ کا استعمال نہیں ہوتا۔ 

اس میں ریکارڈ ایک ترتیب Sequence سے محفوظ کیے جاتے ہیں۔

اس میں ریکارڈ محفوظ کرنے کی کوئی ترتیب نہیں ہوتی۔ 

اس کے اندر اگر ایک مرتبہ ریکارڈ بلاک چین میں شامل کردیا گیا تو پھر اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ 

اس کے اندر شامل شدہ ریکارڈ کے اندر تبدیل آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ 

جب بھی کوئی لیجر میں تبدیل واقع ہوتی ہے تو تمام کمپیوٹرز کو اس تبدیلی سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

اس میں لیجر میں تبدیلی کی صورت میں تمام کمپیوٹرز کو آگاہ نہیں کیا جاتا۔ 

 

بلاک چین ٹیکنالوجی اور کرپٹو کرنسی میں کیا تعلق ہے؟

بلاک چین ٹیکنالوجی محض ایک مخصوص طریقہ کار ہے، جس کی مدد سے آپ کمپیوٹر نیٹ ورک پر ڈیٹا (ریکارڈ اور اعداد و شمار) کو محفوظ کرتے ہیں اور کرپٹو کرنسی کے اندر اس کو کرپٹو کرنسی سے متعلق ریکارڈ کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی آسان الفاظ میں جب کوئی بھی دو اشخاص آپس میں کرپٹو کرنسی کا تبادلہ کرتے ہیں تو اس سارے معاملے کا، یعنی ٹرانزیکشن Transaction کا ریکارڈ بلاک چین کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے۔ بلاک چین ٹیکنالوجی کی مدد سے کوئی کمپنی اپنی آمدنی کے ریکارڈکو محفوظ کرسکتی ہے۔ آٹو موبائل انڈسٹری کی چار پانچ کمپنیاں مل کر ان کمپنیوں میں بننے والی گاڑیوں سے لے کر ان کی خریدو فروخت اور رجسٹریشن وغیرہ کے ریکارڈ کو محفوظ بنا سکتی ہیں۔ اسی طریقے سے بینک، صارف کےپیسوں کا حساب کتاب یعنی ڈیبٹ اور کریڈٹ بھی بلاک چین کے ذریعے سے محفوظ کرسکتا ہے۔ غرض بلاک چین ٹیکنالوجی ہر اس جگہ استعمال ہوسکتی ہے، جہاں پر آپ کو ریکارڈ کو محفوظ کرنا ہو، البتہ لازمی نہیں ہے کہ ہر جگہ اس کی وہی افادیت ہو جو بلاک چین کے کسی مشہور استعمال میں ہو، جیسا کہ کرپٹو کرنسی میں۔[2]

بلاک چین کے علاوہ کھاتے (ریکارڈ) محفوظ کرنے کے طریقہ کار

اس کے علاوہ یہ لازمی نہیں ہے کہ کوئی نئی کرپٹو کرنسی بنانے کے لیے آپ بلاک چین ہی کا استعمال کریں۔ آپ کو ریکارڈ ہی تو محفوظ کرنا ہے تو آپ کوئی بھی دوسرا ڈسٹریبیوٹڈ لیجر DLT کا نظام بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت سترہ ہزار سے زائد کرپٹو کرنسیاں موجود ہیں اور کرپٹوکرنسی کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے ان میں سے کئی بلاک چین ٹیکنالوجی کے علاوہ دوسری ٹیکنالوجیز کو بھی استعمال کررہی ہیں، مثلاً Hedera HBAR ایک کرپٹوکرنسی ہے جوکہ ہیش گراف الگوریتھم Hashgraph Algorithm کو استعمال کرکے اپنے نظام کو چلارہی ہے۔ اسی طرح سے IOTA Tangle  ایک ٹیکنالوجی ہے جو (Directed Acyclic Graph DAG) کو استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی ہے اور اس کی اپنی ایک کرپٹو کرنسی بھی موجود ہے۔ 
اب ہم ایک مثال کے ذریعے سے آپ کو کرپٹوکرنسی، این ایف ٹی، ٹوکن، میٹاورس، ڈیجیٹل زمین کی خرید و فروخت اور اس سے متعلقہ چیزوں کے تصور کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس مثال پر غور کرنے کے بعد ان شاءاللہ! بہت ہی آسانی کے ساتھ ہمیں ان تمام اصطلاحات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ 

جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی ڈیجیٹل زمین کی کرپٹو کرنسی سے خریدوفروخت اور میٹاورس

جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، جمشید روڈ کراچی میں واقع ہے اوریہ مدرسہ کافی بڑی اراضی پر محیط ہے۔ ہم فرض کرلیتے ہیں کہ اس کا کُل رقبہ تقریباً ۵۰ ایکڑ ہے۔ زید ایک شخص ہے جو کہ امریکہ کے شہر نیویارک میں رہائش پذیر ہے۔ وہ انٹرنیٹ پرنیکسٹ ارتھhttps://www.nextearth.io نامی ویب سائٹ پر جاتا ہے جوکہ ڈیجیٹل زمین Digital Land میٹا ورس Metaverse کے لیے مہیا کرتی ہے۔ زید کے پاس چونکہ کرپٹو کرنسی موجود نہیں تھی، لہٰذا سب سے پہلے وہ کرپٹو کرنسی ایکسچینج مثلاً Coinbase, Binance Bitfinex وغیرہ پر گیا اور وہاں پر جا کر اس نے اپنے امریکی ڈالروں سے کرپٹوکرنسی خریدی، چونکہ میٹک(Polygon MATIC) نامی کرپٹو کرنسی ہی اس Nextearth نامی ویب سائٹ پرخریدوفروخت کے لیے استعمال ہوسکتی تھی، لہٰذا زید نے اپنے ڈالروں کے بدلے میٹک خریدلی۔ یہ خریداری وہ اپنے کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ یا بینک ٹرانسفر کے ذریعے سے بھی کرسکتا ہے۔ زید کے پاس کرپٹو والٹ بھی ہونا چاہیے، اس کے لیے وہ کوئی بھی کرپٹو والٹ اپنےکمپیوٹر یا موبائل میں انسٹال کرسکتا ہے۔ Meta Mask, Trust Wallet, Coinbase چند مشہور کرپٹو والٹ ہیں۔ جب زید کا والٹ انسٹال ہوجائے گا تو وہ پولی گان نیٹ ورک کو اس میں شامل کرئےگا یا پھر اس کا والٹ ملٹی کوائن والٹ ہونا چاہیے۔ میٹک خریدتے وقت زید اپنے کرپٹو والٹ کا ایڈریس کرپٹو ایکسچینج میں ڈالے گا، تاکہ میٹک کرپٹو کرنسی اس کے والٹ میں ٹرانسفر کردی جائے۔ زید پھر اس نیکسٹ ارتھ کی ویب سائٹ پر جاکراپنا اکاؤنٹ بنائے گا، لاگ اِن کرے گا اور سب سے پہلے اپنا ڈیجیٹل والٹ اس ویب سائٹ کے ساتھ لنک کرےگا اور اس کے بعد وہ پوری دنیا کے نقشے پر اپنی پسندیدہ زمین کی تلاش کرتا ہے۔ اب زیدکو جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی زمین پسند آتی ہے، وہ اس نقشے میں دیکھ سکتا ہے کہ کہیں یہ زمین کسی کی ملکیت تو نہیں؟ اگر ہے تو وہ اس مالک کو اس زمین کی قیمت آفر کرسکتا ہے۔ اگر وہ زمین کسی کی ملکیت نہیں ہے تو وہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے رقبے کو نقشے پر منتخب کرے گا اور پھر ویب سائٹ پر اس زمین کے رقبے کی قیمت اس کو نظر آنے لگے گی۔ اس وقت اس ڈیجیٹل زمین یعنی جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے رقبے کی مارکیٹ ویلیوصرف ۷ یو اس ڈی ٹی USDTہے۔ ہمیں اس زمین کی قیمت USDTمیں لکھی نظر آئے گی، جو کہ ایک اسٹیبل کوائن Stable Coin ہے اور میٹک میں بھی نظر آئے گی۔ اگر زید اس قیمت پر راضی ہے تو وہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی زمین اس ویب سائٹ سے خرید لے گا اور اب وہ اس ڈیجیٹل زمین کا مالک ہے۔ زمین کا جو رقبہ ہم خریدتے ہیں، وہ ٹائل کی بنیاد پر ملتا ہے، یعنی ایک ٹائل ایک خاص مربع اسکوائر کی اراضی کو ظاہر کرتا ہے۔ 
کچھ مہینوں بعد بکر جو کہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہتا ہے، اس کو جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی زمین کا ٹکڑاپسند آتا ہے۔ اب وہ دیکھتا ہو تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو زید کی ملکیت ہے۔ بکر ویب سائٹ پر جاکر زید کو اس زمین کی ایک ہزار سات یو ایس ڈی ٹی آفر کرتا ہے جو کہ زید قبول کرلیتا ہے اور پھر زید یہ زمین بکر کے نام منتقل کردیتا ہے۔ اس طریقے سے زید نے کچھ مہینوں میں ایک ہزار یو ایس ڈی ٹی (جو کہ ایک ہزار امریکی ڈالر ہوتے ہیں، جو کہ تقریباً ۲ لاکھ پاکستان روپیہ بنتا ہے کا منافع کما لیا)۔ 
فرض کرتے ہیں کہ بکر آسٹریلیا سے پاکستان آتا ہے اور بعد نمازِ عصر وہ جامعہ کے مہتمم اور ناظم اعلیٰ سے ملاقات کرکے ان حضرات کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اب جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی زمین کا مالک وہ ہے اور اس کے پاس باقاعدہ اس تمام لین دین کا نہ صرف یہ کہ ریکارڈ ہے، بلکہ وہ یہ بھی ان حضرات کے علم میں لائے گا کہ اس نے یہ زمین کتنے پیسوں میں خریدی ہے۔ اور اس کے بعد بکر کچھ مندرجہ ذیل فقہی اور قانونی دلیلیں بھی دیتا ہے، مثلاً:
دلیل نمبر۱: بکر نے زید سے یہ جامعہ کی زمین باقاعدہ زر (کرپٹوکرنسی)کے ذریعے سے خریدی ہے، گو کہ اس کے پیچھے کوئی بینک اور حکومت نہیں ہے، مگر اس کرپٹو کرنسی کو پوری دنیا عرف میں تسلیم کرتی ہے، لہٰذا یہ بیع جائز ہے۔ 
دلیل نمبر۲: یہ خریدوفروخت اس لیے بھی جائز ہے، کیونکہ جب بکر نے یہ زمین کا ٹکرا خریدا، اس کو باقاعدہ ایک کوڈ ملا ہے جو کہ اس کی ملکیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کوڈ بنیادی طور پر اس اراضی کا این ایف ٹی NFT ہے، یعنی ایک قسم کا ڈیجیٹل شناخت اور ثبوت Digital Identifier ہے کہ جامعہ کی زمین کا یہ ٹکڑا اب بکر کی ملکیت میں ہے اور اس ساری لین دین یعنی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ آئن لائن بلاک چین پر بھی محفوظ ہے۔ نیز پہلے یہی زمین کا ٹکرا زید کے پاس تھا تو اس کے پاس اس کا مختلف کوڈ تھا جو کہ اس نے یعنی بکر کو منتقل کیا اور باقاعدہ نہ صرف یہ کہ ڈیجیٹل لینڈ (زمین) کی منتقلی ہوئی، بلکہ اس پر بکر کا قبضہ بھی ہوگیا ہے۔ 
دلیل نمبر۳: یہ زمین جو کہ بکر نے خریدی ہے ایک حسی شے ہے، کیونکہ آپ اس کو کسی بھی کمپیوٹر پر دیکھ سکتے ہیں، منتقل کرسکتے ہیں اور اس پر قبضہ بھی کرسکتےہیں۔ اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بکر یہ کہتا ہے کہ پہلے یہ کوڈ (زمین کا این ایف ٹی) زید کے پاس تھا اور اب میرے یعنی بکر کے پاس ہے۔ 
دلیل نمبر۴: جس کرپٹو کرنسی سے یہ خریدوفروخت واقع ہوئی ہے، وہ کرنسی نہیں ہے، بلکہ زر کی تعریف میں داخل ہے۔ ائمہ اربعہ کے یہاں ’’زر‘‘ وہ چیز ہوتی ہے جو لوگوں کے عرف میں ’’زر‘‘ سمجھی جائے اور اس کی دلیل کے لیے آپ احناف کے یہاں علامہ مرغینانی  رحمۃ اللہ علیہ ، حنابلہ کے یہاں ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور مالکیہ کے یہاں امام مواق  رحمۃ اللہ علیہ  کے اقوال فقہ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ 
دلیل نمبر۵: یہ ساری لین دین جو ہوئی ہے اور اس میں جو نفع حاصل ہوا ہے، یہ باقاعدہ کاروبار کا حصہ ہے، یعنی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی کا استعمال جوے اور سٹے بازی میں ہوتا ہے، وہ یہاں پر نہیں ہورہا۔ اصول یہ ہے کہ اگر کسی چیز کا جائز اور ناجائز دونوں طرح کا استعمال ممکن ہو اور یہ ظن غالب یا یقین نہ ہو کہ لینے والا غلط استعمال ہی کرے گا تو اس کی فروخت جائز ہے۔ نیز کسی بھی چیز کی قیمت میں اتار چڑھاؤ ممکن ہے اور یہ کاروبار کا حصہ ہے اور اسے رسک مینجمنٹ سے کنٹرول کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ تأثر کہ کرپٹو کرنسی سٹے بازی، جوا اور قمار ہے تو یہ دلیل اس سارے لین دین کے عدم جواز کی وجہ نہیں بن سکتی۔ 
دلیل نمبر۶ : یہ زمین کرپٹو کرنسی کی مدد سے خریدی گئی ہے اور کرپٹو کرنسی حسی طور پر موجود ہوتی ہے، اس کرپٹو کرنسی کو محسوس اور استعمال کیا جاسکتا ہے اور انہیں معدوم فرضی ہندسہ کہنا درست نہیں ہے، لہٰذا کرپٹو کرنسی کی مدد سے اس زمین کی خریدوفروخت جائز ہے، نیز چونکہ کرپٹو کرنسی کا انتقال بھی ہوتا ہے اور قبضہ بھی ہوتا ہے، لہٰذا اس لحاظ سے بھی یہ بیع جائز ہے۔ 
دلیل نمبر ۷: اسی طرح سے سوشل میڈیا پر کچھ مفتیانِ کرام نے کرپٹو کرنسی کو جائز قرار دیا ہے، لہٰذا ان مفتیانِ کرام کی رائے پر عمل کرتے ہوئے یہ کہنا بھی مناسب ہوگا کہ یہ بیع جائز ہے۔ 
یہ تمام دلائل پیش کرنے کے بعد بکر، مہتم اور ناظم اعلیٰ جامعۃ العلوم الاسلامیہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کریں کہ اب جامعہ کی زمین کا شرعی اور قانونی طور پر وہ مالک ہے۔ قارئین! آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ یہ ساری باتیں، قانونی دلیلیں، اور فقہی نکات سننے کے بعد مہتم صاحب اور ناظم اعلیٰ صاحب کیا ارشاد فرمائیں گے؟پھر اس ساری ڈیجیٹل زمین کی خرید وفروخت کے اندر کافی سارے مسائل ایسے بھی ہیں، جن کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ہم کچھ اشکال پیش کررہے ہیں۔ 
اشکال نمبر ۱: جب بکر نے زید سے زمین خریدی تو پاکستان میں یا کسی اور ملک میں اس پر کتنا ٹیکس دیا؟ یعنی اگر پاکستان میں آپ زمین خریدتے ہیں تو زمین کے کاغذات اپنے نام کروانے کے لیے آپ کو کچھ ٹیکس دینا پڑتا ہے، مگر یہاںپر وہ ٹیکس نہیں دیا گیا اور حکومت کو آمدنی میں اچھا خاصا نقصا ن ہوا۔ 
اشکال نمبر۲: جب آپ خرید و فروخت کرتے ہیں تو اس کو اسٹمپ پیپر پر معاہدے Contract کی شکل میں بھی لکھتے ہیں تو اس اسٹمپ پیپر کی قیمت ہوتی ہے۔ اس سے بھی حکومت کو آمدنی ہوتی ہے، تو اس صورت میں آپ نے حکومت کی اس آمدنی کو بھی ختم کیا۔ 
اشکال نمبر ۳: بورڈ آف ریونیو اور انکم ٹیکس کے قوانین کے مطابق آپ کو اپنے اثاثے ڈکلئیر کرنے ہوتے ہیں، تو جب یہ زمین زید کی ملکیت سے بکر کی ملکیت میں آئی تو اس کو کس طرح سے انکم ٹیکس گوشواروں میں ڈکلئیر کیا جائے گا؟
اشکال نمبر ۴: جب یہ سارا انتقال ہوتا ہے تو کوئی رئیل اسٹیٹ پراپرٹی ڈیلر بھی بیچ میں آتا ہے اور اس کے پاس کوئی کانٹریکٹ لکھنے والا بھی موجود ہوتا ہے جو کہ اسٹمپ پیپر پر معاہدہ لکھتا ہے۔ زمین کی خرید و فروخت سے اس کی آمدنی بھی ہوتی ہے، تو مندرجہ بالا خرید وفروخت سے ان کے ذرائع آمدن پر کیا فرق پڑے گا؟
اشکال نمبر ۵: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس ساری بیع کے تناظر میں ہم انکم ٹیکس رجیم Income Tax Regime کے دائرہ کار سے باہر نکل آئے اور حکومتوں کا موجودہ نظام تہس نہس ہوگیا؟
اشکال نمبر ۶: جب ہم خرید وفروخت کریں گے تو پیسے یا تو بینک ڈرافٹ کی شکل میں منتقل کریں گے یا بینک اکاؤنٹ کے ذریعے ٹرانسفر کریں گے۔ اس سارے معاملے میں ہمیں بینک سے بھی کٹوتی کروانی پڑے گی، جس سے بینک اپنا معاوضہ لے گا۔ بینک اسی طرح کے تمام معاوضوں سے اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرے گا اور حکومت کو بھی اپنی آمدنی سے ٹیکس دے گا اور اسی طرح معیشت کا پہیہ چلے گا۔ نیز جب ہم بینک کے ذریعے سے پیسے ٹرانسفر کریں گے تو حکومتِ وقت کو پتہ ہوگا کہ کیا لین دین ہوا اور کیا ہماری آمدنی ہے۔ جب ہم بینکنگ ذرائع سے ہٹ کر کرپٹو کرنسی سے یہ ساری خریدوفروخت کریں گے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی نے اپنے کالے دھن کو سفید کیا ہو؟
اس مثال سے قارئین کو کافی حد تک انٹرنیٹ پر لین دین اور ڈیجیٹل کاروبار کے خدوخال کا اندازہ ہوگیا ہوگا اور ان بنیادی اصولوں کی آگاہی ہو گئی ہوگی جس کی بنیاد پر انٹرنیٹ پر یہ سارا کاروبار ہورہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس مثال کے اندر جو جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی ڈیجیٹل زمین تھی، اس کا این ایف ٹی بنایا گیا، تاکہ ہر زمین کے ٹکڑے کی علیحدہ اور منفرد نشانی ہو اور اس کی خریدوفروخت کا مکمل ریکارڈ رکھاجاسکے اور اس کی ملکیت کا دعویٰ اور اس دعویٰ کو پرکھا بھی جاسکے۔ یہ این ایف ٹی جس کمپیوٹر نیٹ ورک یا نظام کے اوپر بنایا گیا، وہ بلاک چین ٹیکنالوجی (ایتھریم) کے اوپر بنایا گیا ہے۔ اس مثال کے اندر زمین کی خریدوفرخت کرپٹوکرنسی کی مدد سے ہوئی ہے اور اس کے اندر اگر کوئی معاہدے میں اضافی شق رکھی گئی ہے کہ مثلاً جب بھی یہ زمین آگے بکے گی، اس کا دس فیصد منافع زید کو ملے گا تو یہ معاہدہ اسمارٹ کانٹریکٹ کی مدد سے شامل کیا گیا ہوگا۔ نیز یہ زمین اگر کسی کمپیوٹر گیم یا تخیلاتی یا ورچول دنیا میں استعمال ہوگی تو وہ دنیا میٹاورس کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اب ہم کرپٹو کرنسی اور این ایف ٹی کے متعلق مزید معلومات فراہم کرتے ہیں۔ 

حواشی وحوالہ جات

]1]  M.H.Rehmani, ‘‘Blockchain Systems and Communication Networks: From Concepts to Implementation’’  Springer Nature Switzerland, 2021.
]2]  K. Wüst and A. Gervais, Do you Need a Blockchain 2018 Crypto Valley Conference on Blockchain Technology (CVCBT) 2018, pp. 45-54, doi: 10.1109/CVCBT.2018.00011.
                                  (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین