بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ووٹ کی شرعی حیثیت

ووٹ کی شرعی حیثیت

    ووٹ امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال اسلامی فریضہ ہے۔اس اسلامی ذمہ داری کو مفاد پرستی، سڑکوں، گلی کوچوں، کھمبوں، ٹرانسفارمروں اور آلوپیاز کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ملک پاکستان میں حالات دن بدن بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ انتخابات میں ووٹ استعمال کرتے وقت اس کو خالص دنیاوی معاملہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ووٹ امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال دینی فریضہ ہے۔ اگر اہلِ وطن اس دینی امانت اور اسلامی فریضہ کی ادائیگی میں ہمیشہ کی طرح سُستی اور کاہلی برتتے رہے تو نہ ملک کا کوئی طبقہ محفوظ رہے گااور نہ ہی کوئی مقام۔اگر ووٹ کا استعمال اسلامی فریضہ کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا رہاتو خدا نہ کرے یہ ملک ہی باقی نہ رہے گا۔ اہل وطن کی یہ روش جو ملک میں چل پڑی ہے، اگر یکسر تبدیل نہیں کی جائے گی تو ملک سے بد امنی ، غربت و افلاس ، بے روزگاری کا خاتمہ نا ممکن ہوگا۔ جس طرح الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کو صاف شفاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے تو ساتھ ساتھ امیدواروں کے صاف شفاف ہونے کی ذمہ داری کا احساس بھی پوری تندہی سے اداکرے۔      الیکشن کمیشن سے زیادہ ذمہ داری عوام ووٹروں کی ہے کہ وہ ووٹ کو امانت اور اسلامی ذمہ داری کے طور پر استعمال کریں۔اکثر و بیشتر کئی دہائیوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ انتخابات کے شروع ہوتے ہی غریب عوام جومہنگائی، غربت، بے روزگاری کی ماری ہوئی ہے، اور مفاد پرست اشخاص اس وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے لیڈروں ، پارٹیوں اور ان کے دلالوں سے کچھ وصول کرنے کے لئے دوڑیں لگانے لگ جاتے ہیں۔ نوکریوں کے حصول اور آلو پیاز کی فکر میں بے حسی ، مفاد پرستی اور ضمیر کی کمزوری بلکہ ضمیر فروشی کا ثبوت دیتے ہوئے اور ملک کی بقاء کو دائو پر لگاتے ہوئے اپنی عزت نفس اور اپنے بڑوں کے ناموس کو پس پشت ڈال کر یہ سوداگر چھوٹے بڑے بیوپاریوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگ جاتے ہیں۔ الیکشن کی اصل روح اور اصل مقصدکسی کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ ہر ایک امیدوار نے بھی اور ووٹروں نے بھی اپنے مفاد کو سب کچھ سمجھا ہوتا ہے، اور ان کے مد نظر چل کی خیر کل کی خیر ہوتی ہے۔ ووٹ استعمال کرنے کا مقصد ایسے باکردار لوگوں کو منتخب کرنا ہوتا ہے جو ملک کے خیر خواہ ہوں ، ملکی مفاد، ملک کی بقاء اور استحکام کا درد رکھنے والے ہوںاور نفاذِ شریعت ان کی اولین ترجیح ہو، نہ کہ ایسے آدمی کو منتخب کریں کہ جن کا نظریہ اور مشن صرف اور صرف اپنی تجوریاں بھرنا ہو،نیزیہ بھی ضروری ہے کہ امیدوار خدا و رسول ا کے دین کا باغی اور منکر بھی نہ ہو۔ ووٹ کا استعمال      ہم سنی مسلمان اپنا ووٹ اس امیدوار کے حق میں استعمال کریں گے جو صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو ، نشہ آور اشیاء کا عادی نہ ہو، جواری اور سود خور نہ ہو، وطن پاکستان کو جسے لاکھوں مسلمانوں نے جان، مال اور عزتوں کی قربانی دے کر اسلامی نظامِ حکومت ، نظامِ معیشت، نظامِ عدالت کے لئے حاصل کیا تھا، اس کی مقننہ اور بااختیار اسمبلی میں غیر مسلم شریک نہ کیا جائے ، بالکل اسی طرح جس طرح کہ روسی نظام کا قائل امریکہ کی ریاستوں میں شامل نہیں کیا جاتا اور اسی طرح امریکی نظام کو ماننے والا روسی حکومت میں برداشت اور شامل نہیں کیا جاتا۔ اگر ان شرطوںکا کوئی امیدوار نہ ملے تو اس سے بہتر ہے کہ پھر ووٹ استعمال ہی نہ کیا جائے۔ ووٹ ایک شرعی شہادت     ووٹ نمائندہ کے حق میں شہادت ہے۔ اور ہر اکیس سالہ شہادت کا اہل نہیں ہوتا، شہادت کے لئے صرف بالغ ہونا کافی نہیں، بلکہ جھوٹ کا عادی نہ ہونا بھی ضروری ہے یا خوفِ خدا کی وجہ سے جس کی علامت کم از کم صوم و صلوٰۃ کی پابندی ہے، جیسے سطوربالا میں عرض کیا گیا۔ مولانا مفتی محمد شفیع  ؒ نے معارف القرآن جلد دوم آیت ’’أَنْ تُؤَدُّوْا الْأَمَانَاتِ إِلٰی أَھْلِھَا‘‘کے متعلق لکھا ہے: آیت کانزول اگرچہ ایک خاص واقعہ میں ہے، لیکن حکم عام جس کی پابندی پوری امت کے لئے ضروری ہے۔ ’’إِنَّ اﷲَ یَأْ مُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوْا الْأَمَانَاتِ إِلٰی أَھْلِھَا‘‘یعنی اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچایا کرو(اسی طرح ووٹ بھی ایک شہادت اور امانت ہے) جس کے ہاتھ میں کوئی امانت ہے، اس پر لازم ہے کہ یہ امانت اس کے اہل و مستحق کو پہنچادے۔حکومت کے مناصب (عہدے) جتنے بھی ہیں، وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں،جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیںجن کے ہاتھ عزل و نصب کے اختیارات ہیں، ان کے لئے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کردیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے، بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کیلئے اپنے دائرۂ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔      ایک حدیث میں ارشاد ہے: جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوںکے سپرد کر دی گئی جو اس کے اہل نہیں تو (اب فساد کا کوئی علاج نہیں) قیامت کا انتظار کرو۔اب ہر شخص یہ سوچ سمجھ کر ووٹ استعمال کرے کہ آیا میرا ووٹ ایسے شخص کے حق میںتو نہیں جا رہا جس کا قرآن و حدیث سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ آج جو پوری دنیا خصوصا ً اسلامی ملک پاکستان میں جو فساد، بد امنی، دہشت گردی اور تخریب کاری کی آگ سلگ رہی ہے، یہ ہمارے غلط انتخاب کا نتیجہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے لفظ ’’أمانات‘‘ صیغۂ جمع لاکر اس کی طرف اشارہ کر دیا کہ امانت صرف اسی کانام نہیں کہ ایک شخص کا مال کسی دوسرے شخص کے پاس بطور امانت رکھا ہو، بلکہ امانت کی بہت سی اقسام ہیں، جن میں حکومتی عہدے بھی داخل ہیں۔انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت ’’مفتی محمد شفیع صاحب  ؒ ‘‘ کے رسالے سے ضروری سمجھ کرتحریر کرتا ہوں۔  امیدواری     کسی مجلس کی ممبری کے انتخابات کیلئے جو امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو، وہ گویا پوری ملت کے سامنے دو چیزوں کا مدعی ہے: ایک یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے، جس کا وہ امیدوار ہے، دوسرے یہ کہ وہ دیانت دا ری سے اس کام کو انجام دے گا۔      اب اگر واقع میں وہ اپنے اس دعویٰ میں سچا ہے، یعنی قابلیت رکھتا ہے اور امانت و دیانت کے ساتھ قو م کی خدمت کے جذبے سے اس میدان میں آیا تو اس کا یہ عمل کسی حد تک درست ہے اور بہتر طریق اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص خود مدعی بن کر کھڑا نہ ہو، بلکہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اس کو اس کام کا اہل سمجھ کر نامزد کردے اور جس شخص میں اس کام کی صلاحیت ہی نہیں،وہ اگر امیدوار ہوکر کھڑا ہو تو قوم کا غدار اور خائن ہے، اس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک و ملت کیلئے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا، پہلے تو وہ خود غدار اور خیانت کا مجرم ہوکر عذابِ جہنم کا مستحق بن جائے گا۔      اب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کیلئے کھڑا ہوتا ہے، اگر اس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائزہ لے لے ،اور یہ سمجھ لے کہ اس ممبری سے پہلے تو اس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال تک محدود تھی، کیونکہ بنصِ حدیث ہر شخص اپنے اہل و عیال کا بھی ذمہ دار ہے اور اب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلق خدا کا تعلق اس مجلس سے وابستہ ہے، ان سب کی ذمہ داری کا بوجھ اس کی گردن پر آتاہے اور وہ دنیا و آخرت میں اس ذمہ داری کا مسئول اور جوابدہ ہے۔ ووٹ اور ووٹر     کسی امیدوارِ ممبری کو ووٹ دینے کی از روئے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت اور امانت بھی۔ اور اگر واقع میں اس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے ، جو سخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں رسول کریم ا نے شہادت کاذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے ۔      جس حلقے میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابل ترجیح ہے تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے،محض رسمی مروت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔      دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتاہے۔ اس سفارش کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے :  ’’مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْہَا وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْہَا‘‘۔                                                                      (النسائ:۸۵) ترجمہ:’’ جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے تو اس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں اس کا بھی حصہ لگتا ہے‘‘۔      اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کرے جو خلق خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرلے ۔اور بری سفارش یہ ہے کہ نا اہل ، نالائق ، فاسق اور ظالم کی سفارش کرکے اس کو خلق خدا پر مسلط کر لے ۔اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے پانچ سالہ دور میں جو نیک یا بد عمل کرے گا، ہم اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔     ووٹر کی ایک تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے ،لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی (ذاتی) حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا اور اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، توپھر بھی معاملہ ہلکا تھا،مگر یہاں ایسا نہیں، کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جس میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے ، اس لئے اگر کسی نا اہل کو اپنی نمائندگی کیلئے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کے گردن پر رہا۔      خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے:۱:… ایک شہادت۔۲:… دوسرے سفارش۔۳:… تیسرے حقوقِ مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک ، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثوابِ عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نا اہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیںگے۔ ضروری تنبیہ!     جس طرح قرآن و سنت کی روسے یہ واضح ہوا کہ نا اہل ، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہ عظیم ہے، اسی طرح ایک اچھے ، نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثواب عظیم ہے،بلکہ ایک فریضۂ شرعی ہے۔ قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرمایا ہے۔      آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آ رہی ہیں، ان کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک ، صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے، جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ میں آ رہا ہے کہ ووٹ عموماً ان لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لئے جاتے ہیں اور ان لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے کہ کس کماش اور کس کردار کے لوگ ہوںگے ! اس لئے جس حلقہ میں کوئی بھی امیدوار قابل اور نیک معلوم ہو، اُسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی حرام اور پوری قوم و ملت پر ظلم کے مترادف ہے۔      اور اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنیٰ میں قابل اور دیانتدار نہ ہو، مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت کار اور خدا ترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت غنیمت ہو تو تقلیل شر اور تقلیل ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز، بلکہ مستحسن ہے۔مختصر یہ کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے، جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام اور اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس میں محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔     آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانتداری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے۔جس مقصد کے لئے یہ انتخابات ہو رہے ہیں ،اس کی حقیقت کو سامنے رکھیں اور اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:      ۱:…آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا، وہ اس سلسلہ میں جتنے اچھے یا بُرے اقدامات کرے گا، اُن کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی، آپ بھی اُس کے ثواب یا عذاب میں برابر شریک ہوںگے۔      ۲:…اس معاملہ میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب بھی محدود، عذاب بھی محدود ،لیکن قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔     ۳:…سچی شہادت کا چُھپانا از روئے قرآن حرام ہے، اس لئے کسی حلقۂ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریہ کا حامل اور دیانت دار نمائندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔      ۴:…جو امیدوار نظریۂ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے، اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے، جو گناہ کبیرہ ہے ۔     ۵:…ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بد ترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دُنیا سنوارنے کیلئے اپنا دین قربان کردینا کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو، کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی۔ رسو ل پاک ا نے فرمایا ہے کہ:’’ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لئے اپنا دین کھو بیٹھے‘‘۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین