بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

موسمِ سرما اور اسلامی تعلیمات

موسمِ سرما اور اسلامی تعلیمات


کائنات کا وجود اور اس میں ہونے والے تغیرات، جیسے مینہ برسنا، آندھیوں کا آنا،کہیں چلچلاتی دھوپ، اور کبھی دھوپ میں ہی بارش کا ہونا، ایسے ہی دریاؤں کا سوکھنا، آتش فشاؤں کا پھٹنا، دن رات کی آنکھ مچولی، ماہ وسال کا گزرنا اور اس کے بدلتے اثرات، یہ سب اللہ جل شانہٗ کے وجود پر دال ہیں کہ کوئی ہے جواِن انتظامات کو سنبھا ل رہا ہے، اور کوئی ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام چیزوں کی ڈور ہے، تبھی تو سمندر کی حدود قائم ہیں، اور وہ اپنی حد سے آگے نہیں بڑھتا، سورج روزانہ نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے، لیکن کبھی مغرب سے طلوع نہیں ہوا، بادل پانی ہی برساتا ہے، آگ جلاتی ہی ہے، یہ تمام چیزیں اللہ رب العزت کے حکم کی محتاج ہیں، اور اسی کے فیصلے پر کاربند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا :
’’إِنَّا کُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ‘‘   (القمر:۴۹)
ترجمہ: ’’ ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا۔ ‘‘    (ترجمہ حضرت تھانویؒ)
اور ان تمام چیزوں کی تخلیق اور ان کے مسخر ہونے میں غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّہَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ‘‘(آلِ عمران:۱۹۰)
ترجمہ: ’’ بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں دلائل ہیں اہلِ عقل کے لیے۔‘‘   (ترجمہ حضرت تھانویؒ)
ایسے ہی طرح موسموں کا بدلنا بھی اللہ تباک وتعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا مظہر ہے کہ کبھی سخت گرمی جو جھلسا دینے والی لُو کے ساتھ مزید سخت ہوجائے اور برف تک کو پگھلائے، اور کبھی یخ بستہ سردی، جو مائع کو بھی جمادے۔ کبھی ہر طرف ہریالی کی پوشاک اوڑھے پیڑ اور رنگ ہائے رنگ کے پھول، اور کبھی اداسی بکھیرتے خشک اور زرد پتوں کا موسم، یہ تمام حالات بھی اللہ جل شانہٗ کی طرف ہی سے ہیں، ان میں سے ہر موسم اپنی ایک منفرد اور الگ خصوصیت اور شناخت رکھتا ہے، اور ان میں انسان کے لیے بہت غور و فکر کرنے کی چیزیں ہیں۔ 
 

سردی کا وجود

سردی کے وجود کے پیچھے بھی اللہ جل شانہٗ کی ایک حکمت پنہاں ہے، اور ایک نظام اس کے پیچھے کار فرما ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
’’اِشْتَکَتِ النَّارُ إِلٰی رَبِّہَا، فَقَالَتْ: ’’رَبِّ اَکَلَ بَعْضِيْ بَعْضًا‘‘، فَاَذِنَ لَـہَا بِنَفَسَيْنِ نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِيْ الصَّيْفِ، فَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الْـحَرِّ وَاَشَدُّ مَا تَجِدُوْنَ مِنَ الزَّمْہَرِيْرِ۔‘‘  (۱)
ترجمہ: ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’جہنم نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے میرے پروردگار! میرا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے، لہٰذا مجھے سانس لینے کی اجازت عنایت فرمائیں، اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی، ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں، تم لوگ جو سردی کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہو وہ جہنم کے (ٹھنڈا) سانس لینے کی وجہ سے ہے اور جو گرمی کی تپش محسوس کرتے ہو وہ جہنم کے (گرم) سانس لینے کی وجہ سے ہے۔‘‘

موسمِ سرما مومن کے لیے بہار

موسمِ سرما بے شک خشکی سے بھر پور موسم ہے، لیکن مومن کے لیے یہ بہار کا کام کرتا ہے، جس طرح بہار میں ڈھیروں پھول کھلتے ہیں، اور ہر طرف ہرے بھرے پیڑوں کی دلکشی ورعنائی انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اسی طرح سردیوں میں اعمالِ صالحہ پر بکثرت قادر ہونا، ان پر اجر کا بڑھ جانا، اس کی دیگر فضیلتیں مومن کو وہی مزہ اور فائدہ پہنچاتی ہیں، جیسا لطف انسان بہار کے موسم میں اٹھاتا ہے،وہ نیکیوں کے باغات میں خوب چرتا ہے، اور اعمالِ صالحہ کے میدانوں میں خوب دوڑیں لگاتا ہے، چنانچہ ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: 
’’الشِّتَاءُ رَبِيْعُ الْـمُـوْمِنِ قَصُرَ نَہَارُہٗ فَصَامَ وَطَالَ لَيْلُہٗ فَقَامَ۔‘‘ (۲)
ترجمہ: ’’سردی کا موسم مومن کے لیے بہار ہے، سردیوں کا دن چھوٹا ہوتا ہے، چنانچہ وہ اس میں روزہ رکھتا ہے، اور رات لمبی ہوتی ہے، چنانچہ وہ اس میں قیام کرتا ہے۔‘‘
ایسے ہی حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: 
’’سردی کا موسم عبادت کرنے والو ں کے لیے غنیمت کا موسم ہے۔‘‘(۳) 
نیز مشہور تابعی عبید بن عمیر لیثی  ؒجب سردی کا موسم آتا تو فرماتے: 
’’اے اہلِ قرآن!تمہاری نمازوں کے لیے راتیں لمبی ہوگئی ہیں، اور تمہارےروزے رکھنے کے لیے دن چھوٹے ہوگئے ہیں، لہٰذا اسے غنیمت جانو۔‘‘ (۴)
ایسے ہی موسمِ سرما میں بوجہ مشقت مختلف اعمال کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے، اور ان پر اللہ تبارک وتعالیٰ ڈھیروں اجر عنایت فرماتے ہیں، چنانچہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: 
’’اَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَا يَمْحُو اللہُ بِہِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِہِ الدَّرَجَاتِ؟ ’’إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَی الْـمَکَارِہِ، وَکَثْرَۃُ الْخُطَا إِلَی الْـمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ، فَذٰلِکُمُ الرِّبَاطُ۔‘‘ (۵)
ترجمہ: ’’کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ معاف کردے اور درجات بلند کردے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ضروربتلائیے! آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اِرشاد فرمایا: (سردی وغیرہ کی) مشقت اور ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور مساجد کی طرف کثرت سے قدم بڑھانا، پس یہی رباط (یعنی اپنے نفس کو اللہ کی اِطاعت میں روکنا) ہے۔‘‘
سردی کی شدت کی وجہ سےاکثر نرم گرم بستر کوچھوڑ کر اُٹھ کر وضو کرنا اورمسجد جانا ایک شاق امر ہے، اسی لیے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے گناہوں کی مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب بتلایا ہے۔ معلوم ہوا کہ سردی کا موسم کثرت کے ساتھ عبادات کرنے کے لیے ایک بہترین موقع ہے۔
 

موسمِ سرما اور تعلیماتِ نبوی

اسلام کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے معتقدین کو زندگی گزارنے کے تمام احسن طریقے سکھائے ہیں، کوئی بھی شخص اسلام کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں معاملہ میں ہم اسلام کو رہنما نہیں پاتے، بلکہ دنیوی واُخروی، داخلی و خارجی تمام چیزوں کے متعلق اسلام ہمیں تعلیمات سے روشناس کراتا ہے۔ موسم سرما بھی ان تعلیمات سے خالی نہیں۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ،نیز خلفاء اربعہ اور اسلاف امت نے اس موسم میں بھی احکاماتِ الٰہی کی طرف توجہ دلائی ہے، چنانچہ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ تمام موسم، ان میں آنے والے حالات، اور ان کا انسانی زندگی پر اثر یہ سب اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہے، کسی موسم کی اپنی کوئی خوبی نہیں کہ اس کے آتے ہی راحتیں میسر ہوجائیں، اور کسی موسم کی خود کارستانی نہیں کہ اس کے دوران صعوبتیں پیدا ہوجائیں، یہ سب محض ارادۂ خداوندی سے ہے، اس لیے سردی ہو یا گرمی ہمیں موسم یا زمانہ کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا ایک ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’قَالَ اللہُ: يَسُبُّ بَنُوْ آدَمَ الدَّہْرَ وَاَنَا الدَّہْرُ، بِيَدِي اللَّيْلُ وَالنَّہَارُ۔‘‘(۶)
ترجمہ: ’’ (حدیث قدسی) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ جل شانہ فرماتے ہیں: ’’بنی آدم زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، جبکہ میں زمانہ ہوں، رات دن کا پلٹنا میرے ہاتھ میں ہے۔‘‘
اسی طرح موسمِ سرما میں ہونے والے موسمی بخارکی وجہ سے کئی لوگ بیمار ہوجاتے ہیں، اور نادانی میں بیماریوں کو بھی کوسنے لگ جاتے ہیں، جبکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے بھی منع فرمایا ہے ، چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے امِ سائب  رضی اللہ عنہا  کو بخار کو برا کہنے سے منع فرمایا، اور اس کی وجہ بھی بتلائی کہ یہ گناہوں کو ایسے دور کرتا ہےجیسے بھٹی لوہے سے زنگ کو دور کرتی ہے۔ (۷)

اعمالِ صالحہ

موسمِ سرما میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کثرت سے اعمالِ صالحہ کرنے کی ترغیب دی ہے، نیز موسمِ سرما اعمالِ صالحہ کی ادائیگی کے لیے،اور قضا روزوں کے لیے ایک بہترین سہولت ہے، جس میں کم مشقت برداشت کرتے ہوئے انسان اجرِ عظیم کا مستحق بن سکتا ہے،چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ الْغَنِيمَۃُ الْبَارِدۃُ۔‘‘ (۸) یعنی ’’سردیوں میں روزہ رکھنا ٹھنڈی غنیمت ہے۔‘‘

نادار اور مفلس لوگوں کے ساتھ ہمدردی

اُخوت، ایثاراور ہمدردی یہ ایسے جذبے ہیں جو اسلام نے ہی متعارف کروائے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کی جیسی ترغیب اسلام دیتا ہے، اور کوئی نہیں دیتا۔ بھائی چارگی، صلہ رحمی، رحم دلی، اسلام کی اہم تعلیمات ہیں، جن میں اسلام صرف مسلمانوں کو ہی خاص نہیں کرتا، بلکہ غیر مسلموں حتیٰ کہ چوپایوں تک کو اس میں شامل کرتا ہے۔ ایسے ہی سردی کے موسم میں بعض غریب افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے لیے گرم لباسوں کا انتظام نہیں کرپاتے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی امت کو ایسے نادار اور مفلس لوگوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے، چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا :
’’اَيُّمَا مُسْلِمٍ کَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا عَلٰی عُرْيٍ کَسَاہُ اللہُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّۃِ۔‘‘ (۹)
ترجمہ: ’’جو کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کپڑا پہنائے گا، اللہ رب العزت اسے جنت کالباس پہنائیں گے۔‘‘

سردی کی شدت سے پناہ

ہر چیز میں خیر و شر دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہر چیز میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے خیر و عافیت طلب کی ہے، جبکہ اس چیز کے شر سے پناہ مانگی ہے۔ ایسے ہی سردی کے شر سے بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پناہ چاہی ہے، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری وحضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہما  نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: 
’’ اگر سخت سردی کا دن ہو، اور اس وقت کوئی بندہ یہ دعا: ’’لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، مَا اَشَدَّ بَرْدَ ہٰذَا الْيَوْمِ، اللّٰہُمَّ اَجِرْنِيْ مِنْ زَمْہَرِيْرِ جَہَنَّمَ‘‘ پڑھے، تو اللہ جل شانہ جہنم سے ارشاد فرماتے ہیں: ’’میرے بندے نے تیرے زمہریر نامی علاقے سے پناہ مانگی ہے، اور میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے پناہ دی۔‘‘(۱۰)

موسمِ سرما میں شرعی سہولتیں

قانونِ الٰہی ہے کہ ہر تنگی آسانی لیے پھرتی ہے، ایسے ہی فقہاء کے یہاں ایک اصول متعارف ہے کہ ’’الْـمَشَقَّۃُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ‘‘ کہ مشقت آسانی کو کھینچتی ہے، لہٰذا جہاں موسمِ سرما چند سختیوں کو اپنے دامن میں لیے پھرتا ہے، وہیں ڈھیروں راحتیں بھی یہ اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔ شریعت نے جاڑے کے اس موسم میں پیش آنے والی پریشانیوں اور مشقتوں کا علاج بھی بعض سہولتوں کی صورت میں دیا ہے، جس میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

۱:گرم پانی کا استعمال

سردیوں میں پانی ٹھنڈا ہوتا ہے، جو جسم انسانی کو بیمار کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے، لیکن شریعتِ مطہرہ نے سردی کی حالت میں ٹھنڈے پانی کے استعمال کرنے کو لازم نہیں قرار دیا، بلکہ گرم پانی استعمال کرنےکی بھی سہولت دی۔ تاہم گرم پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں ٹھنڈے پانی کے استعمال کرنے پر بیش بہا فضائل بھی بیان کیے۔ ایک روایت میں سردی کی حالت میں اعضائے وضو کو مکمل دھونا، اور وضو اچھی طرح کرنے کو گناہوں کو مٹانے کا ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔

۲:تیمم کرنا

یہ بھی شرعی سہولیات میں سے ہے کہ سخت سردی کی حالت میں اگر گرم پانی دستیاب نہ ہو، اور ٹھنڈے پانی کے استعمال سے مرض کے بڑھنے یا جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسی حالت میں تیمم کر کے پاکی حاصل کی جائے۔ غزوہ ذات السلاسل میں سخت سردی کی حالت میں حضرت عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ  نےرخصت پر عمل کرتے ہوئے ایسے ہی تیمم کر کے نماز پڑھائی۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ مسکرانے لگے، اور کچھ بھی نہ فرمایا۔ (۱۱)

۳:موزوں پر مسح کرنا

شریعت کی طرف سےایک سہولت یہ بھی دی گئی ہے کہ اگر سردی ہو یا عام حالات میں بھی موزوں پر مسح کرنا چاہیں تو یہ جائز ہے، البتہ فقہاء نے موزوں پر مسح کرنے کے لیے چند شرائط بیان کی ہیں، اگر ان شرائط کا خیال رکھا جائے تو موزوں پر مسح کرنا جائز ہے۔

۴:گھر میں نماز پڑھنا

جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، اور اس کے فضائل میں کئی احادیث ، نیز اس کے ترک کرنے پر کئی وعیدیں بھی احادیث میں آئی ہیں۔ لیکن فقہاء نے چند صورتوں میں گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ انہی صورتوںمیں سے ایک صورت سخت سردی کا ہونا ہے، اگر سخت سردی ہو تو گھر میں نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، جیسا کہ نافع  ؒ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ  سے نقل کرتے ہیں کہ: ’’انہوں نے ایک مرتبہ ’’ضجنان‘‘ نامی جگہ میں سردی کی ایک رات میں اذان دی ، اور پھر فرمایا کہ اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو، اور پھر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فعل ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی بارش اور سردی کی رات میں یہ حکم دیا کرتے تھے۔‘‘ (۱۲)

موسمِ سرما اور حفاظتی اقدامات

موسمِ سرما کو انسان کی صحت کا دشمن بتایا گیا ہے، اور اس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانے کی ترغیب بھی دی گئی ہے، چنانچہ سلیم بن عامرؒ ، حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جب سردیاں آتیں تو سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  اپنے ماتحتوں کو خط لکھتے، جن کا مضمون یہ ہوتا:
’’سرما آپہنچا، جو ایک دشمن ہے؛ اس کے مقابلے کے لیے اونی کپڑے، موزے اور جرابیں وغیرہ تیار کرو، اون ہی کا لباس پہنو اور اوپر بھی اونی چادریں اوڑھو؛ کیونکہ سرما وہ دشمن ہے جو جلد داخل ہوتا ہے اور دیر سے جان چھوڑتا ہے۔‘‘ (۱۳)
اللہ رب العزت نے اون اور اس کے رُویں کو اپنی نعمت میں شمار کیا ہے، جس سے انسان سردیوں میں اپنے لیے لباس تیار کرتا ہے، لہٰذا ایسے موقعوں پر انسان کو مناسب گرم لباس کا انتظام کرنا چاہیے، تاکہ وہ اللہ کے دیے ہوئے اس جسم کو مزید طاعات میں لگاسکے۔ 

موسمِ سرما کا پیغام

اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش اور دن رات کی تبدیلی میں اہلِ عقل کے لیے کئی عبرت کی نشانیاں رکھی ہیں۔ موسموں کا آنا، ماہ وسال کا گزرنا، ہرے بھرے درختوں کا سوکھ کر جھڑنا، پتوں کا ٹوٹ کر گرنا، یہ بتاتا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، کوئی بھی چیز ابدی نہیں۔ موسمِ سرما‘ یہ پیغام دیتا ہے کہ جس طرح میرے آنے سے درختوں کی دلکشی اور رعنائی عنقاء ہوئی، ان کے پتے جھڑ گئے، اور خس و خاشاک بن کر کچرے کے ڈھیروں پر پڑے، ایسے ہی انسان کا ایک وقت مقرر ہے، جس کے آتے ہی ساری لذتیں بے کارہوجائیں گی، اور اس وقت وہ ساری تمناؤوں اور تمام خواہشات کو چھوڑ کر اپنی اصل منزل کی طرف گامزن ہوجائے گا، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وقت رہتے ہی اپنی حقیقی منزل کو پہچانے اور اس کی تیاری کرے، قبل اس کے کہ فرشتۂ اجل لبیک کہہ دے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس موسمِ سرما کو ہمارے لیے خیر کا باعث بنائے، آمین۔

حواشی وحوالہ جات

۱: صحیح البخاري، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار، وأنہا مخلوقۃ، رقم الحدیث: ۲۳۶۰.
۲: السنن الکبریٰ للبيہقي، باب ما ورد في صوم الشتاء، رقم الحدیث: ۸۷۱۹.
۳: حليۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصفہاني، ذکر عمر بن الخطاب: ۱/۵۱، ط: دار الکتاب العربي.
۴: مصنف ابن أبي شیبۃ، باب ما قالوا في صوم الشتاء ، رقم الحدیث: ۹۸۳۶.
۵: صحیح مسلم ، باب فضل إسباغ الوضوء علی المکارہ، رقم الحدیث:۲۵۱.
۶: صحیح البخاري، باب لا تسبوا الدھر، رقم الحدیث: ۶۱۸۱.
۷: صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ من مرض، رقم الحدیث: ۲۵۷۵.
۸: مسند أحمد ، مسند عامر بن مسعود، رقم الحدیث: ۱۸۹۵۹.
۹: سنن أبي داؤد، باب في فضل سقي الماء، رقم الحدیث: ۱۶۸۲.
۱۰: عمل الیوم واللیلۃ لابن السني، بَابُ مَا يَقُولُ: إِذَا کَانَ يَوْمٌ شَدِيْدُ الْحَرِّ أَوْ شَدِيْدُ الْبَرْدِ، رقم الحدیث: ۳۰۶، ط: دار القبلۃ، بيروت.
۱۱: سنن أبي داؤد، باب إذا خاف الجنب البرد أیتیمم، رقم الحدیث: ۳۳۴.
۱۲: صحیح البخاري، باب الأذان للمسافر، رقم الحدیث: ۶۳۲.
۱۳: لطائف المعارف، لابن رجب الحنبلي، ذکر فصل الشتاء، ص:۳۳۰، ط: دار ابن حزم.

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین