بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 سائنسی تحقیق، عصری علوم اور دینی مدارس (پہلی قسط)

 سائنسی تحقیق، عصری علوم اور دینی مدارس

Scientific Research , Modern Education and Madaris

 (پہلی قسط)

 

گزشتہ دو صدیوں سے سائنسی ایجادات نے جتنی ترقی کی ہے، وہ ہم سب کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اوریہ سائنسی ایجادات ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہیں۔ سیٹلائٹ کی مدد سے زمین پر اَناج کی پیداوار کا تخمینہ لگانا ہو یا زمین کے اندر چھپے معدنی خزانوں (پیٹرول، گیس، لوہا، سونا، چاندی) کی نشاندہی ہو، آج یہ سب کچھ ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ سائنس افسانوں سے نکل کر ہماری حقیقی زندگی میں اتنی شامل ہوگئی ہے کہ ہم اگر سفر میں کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیں یا کسی نزدیکی بستی کے اندر کسی دکان کی معلومات نکالنا ہوں، یہ سب کچھ ہم چند سیکنڈوں میں کر گزرتے ہیں۔ مائیکرو پروسیسر اور کمپیوٹر کے میدان میں سائنسی ایجادات نے ہماری معلومات تک رسائی کو ممکن بنا دیا ہے۔ گھر بیٹھے ایک شخص سیکنڈوں کے اندر آکسفورڈ یونیورسٹی میں رکھے صدیوں پرانے مسودات سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ بات صرف یہاں پر ہی ختم نہیں ہوگئی، بلکہ اب Tactile Internet کی مدد سے محسوسات کو منتقل کرتے ہوئے ریموٹ سرجریز و آپریشن پایۂ تکمیل تک پہنچائے جارہے ہیں۔ [1]
ان سب سائنسی ایجادات اور ترقی کے پیچھے جو چیز کارفرما ہے، وہ تحقیق (ریسرچ) ہے۔ یہ تحقیق (ریسیرچ) ہی ہے جس کی وجہ سے یہ سائنسی ایجادات اپنے آئیڈیاز سے لے کر کام کرنے کی شکل تک ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔

معیاری سائنسی تحقیق

سائنسی تحقیق (ریسرچ) اگر معیاری ہو تو جو تحقیقی مقالاتResearch Articles اور حقِ سند ایجاد Patents وجود میں آتے ہیں، وہ بھی اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں اور اس سے سائنسی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اور اس سے جو آخری پروڈکٹ Technology انسانوں کے سامنے آتی ہے، وہ بھی معیاری قسم کی ہوتی ہے۔ اور اگر یہ سائنسی تحقیق معیاری نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ اس سےقیمتی وسائل ضائع ہوتے ہیں، بلکہ انسانیت کو بھی ایسی سائنسی تحقیق سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ غرض سائنسی تحقیق کا معیاری ہونا بہت ضروری ہے۔ پچھلی صدی میں سائنس اور سائنسی تحقیق کے اندر بہت زیادہ ترقی ہونے کی وجہ سے سائنسی تحقیق کے معیار کو جانچنے نے بھی باقاعدہ ایک سائنسی شعبے اور فن کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ سائنسی شعبہ یا فن ببلیومیٹرکس Bibliometricsکے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں اس بات کا طریقہ متعین کیا جاتا ہےکہ ایک سائنسی تحقیق کو ہم کیسے جانچیں گے اور کس سائنسدان کی تحقیق کا کیا معیار ہے؟ ببلیومیٹرکس Bibliometrics کا شعبہ اصل میں Library and Information Science کی شاخ کے اندر آتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد سائنسی تحقیق اور سائنسدانوں کی ریسرچ کے معیار کو جانچنا ہے۔ اسی طرح سے سائنسی معیار کو جانچنے اور اس کو آگے ترقی دینے اور بڑھانے کے لیے باقاعدہ یونیورسٹیوں کے ڈیپارٹمنٹ وجود میں آچکے ہیں، جو کہ اس موضوع پر تحقیق بھی کروارہے ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی تفویض کررہے ہیں۔ نیز ان سائنسی تحقیقات کے معیار کوپرکھنے کے لیے اور سائنسی تحقیق کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ریگولیٹری ادارے بھی معرضِ وجود میں آچکے ہیں۔ اسی طرح سےعالمی سطح کی معیاری تحقیق کرنے پر ایوارڈز بھی دئیے جاتے ہیں، جن میں سے چند مشہور یہ ہیں: نوبل پرائز Nobel Prize [2]، ٹیورنگ ایوارڈ Turing Award [3]، فیلو آف رائل سوسائٹی Fellow of the Royal Society، آئی ای ای ای کی فیلوشپ [4] IEEE Fellow، اے سی ایم کی فیلوشپACM Fellow [5] Highly Cited Researcher وغیرہ۔ اس کے علاوہ اور بھی مختلف ایوارڈز ہیں، جو کہ مختلف سائنسی شعبوں کے اندر دئیے جاتے ہیں۔

پاکستان کی جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کا حال

اب اگر ہم سائنسی تحقیق، ایجادات اور ایوارڈز کی بات کریں تو عمومی طور پر اسلامی ممالک کے اندر سائنسی تحقیق کا معیار اتنا اعلیٰ نہیں ہے۔ بالخصوص اگر ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کی بات کریں تو سائنسی دنیا کے اندر پاکستان عمومی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والی تحقیق سے بہت پیچھے ہے۔ یہ بات مبالغہ پر مبنی نہیں ہے، بلکہ ہم شواہد کی بنیاد پر آپ کے سامنے یہ حقائق رکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کی زبوں حالی کی بنیادی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر ہم سائنسی شماریاتی اداروں کی رپورٹ پڑھ لیں تو یہ بات ہم پر عیاں ہو جائے گی کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کا کیا حال ہے۔ سائنسی شماریاتی اداروں یعنی جامعات کی عالمی رینکنگ کرنے والے اداروں (دیکھیے: ٹیبل نمبر ۱) کی جانب سے جو ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی پانچ سو بہترین جامعات کے اندر محض پاکستان کی ایک یا دو جامعات اپنا نام بنا پائی ہیں۔

ٹیبل نمبر ۱: جامعات کی عالمی رینکنگ کرنے والے اداروں کے نام

1
ملٹی رینک
Multirank 
https://www.umultirank.org
2
ٹائمز ہائیر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ
Times Higher Education World University Ranking 
https:// en.wikipedia.org/wiki/Times_Higher_Education_World_University_Rankings
3
قیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ
 QS World University Rankings 
https://en.wikipedia.org/wiki/QS_World_University_Rankings
4
شینگھائی رینکنگ
Shanghai Ranking – Academic Ranking of World Universities 
https://www.shanghairanking.com/rankings/arwu/2020 
جامعات کی عالمی رینکنگ کے ادارے بہت سارے عوامل کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس جامعہ کا کون سا عالمی درجہ ہوگا۔ ان عوامل کے اندر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جامعات کے اندر تحقیق کس معیار کی ہورہی ہے؟ ان کے اندر تدریس کا کیا معیار ہے؟ ان جامعات کا انڈسٹری کے ساتھ کتنا اشتراک ہے اور انڈسٹری کی جانب سے ان جامعات کو کتنی فنڈنگ دی جارہی ہے؟ نیز ان جامعات کے اندر کتنے نوبل انعام یافتہ سائنسدان اور محققین ہیں اور کتنے Highly Cited Researcher ہیں؟ اس کے علاوہ ان جامعات کے کتنے فارغ التحصیل طلبہ کو نوبل انعام ملا ہے؟ مزید براں یہ کہ ان جامعات کے اندر ہونے والی تحقیق سے انسانیت کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ اس کے علاوہ اسٹوڈنٹ فیکلٹی (طلبہ، اساتذہ) تناسب کیا ہے؟ دوسرے ممالک کے کتنے طلبہ ان جامعات کے اندر تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ ٹیبل نمبر ۲ کے اندر ہم نے دو جامعات کی عالمی رینکنگ کے اداروں کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے، جس کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جامعات کی عالمی درجہ بندی ایک سائنسی طریقے سے ہوتی ہے، جس کے اندر مختلف عوامل کو وزن دیا جاتا ہے، تاکہ جامعات کے معیار کو جانچا جاسکے۔

ٹیبل نمبر۲: جامعات کی عالمی رینکنگ کے اداروں کا تقابلی جائزہ اورمعیار و کارکردگی کے مختلف عوامل کو وزن دینے کا تناسب

ٹائمز ہائیر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ
Times Higher Education World University Ranking
https://en.wikipedia.org/wiki/Times_Higher_Education_World_University_Rankings
ایجوکیشن کوالٹی نوبل انعام یافتہ طلبہ
10%
تدریسی عملہ جس کو نوبل انعام ملا ہو
20%
Highly Cited Researchers
20%
نیچر اور سائنس میں تحقیقی مقالہ جات
20%
تحقیقی مقالہ جات جو کہ ایس سی آئی ای انڈیکس ہو
20%
Per capita academic performance
10%
ٹوٹل
100%
شینگھائی رینکنگ
 Shanghai Ranking Academic Ranking of World Universities
https://www.shanghairanking.com/rankings/arwu/2020
انڈسٹری سے آمدن
2.5%
طلبہ اور اساتذہ میں عالمگیریت
5%
تدریس (پی ایچ ڈی، طلبہ کی تعداد، وغیرہ)
30%
تحقیق (تحقیقی مقالہ جات، تحقیق سے آمدن، وغیرہ)
30%
تحقیق کا اثر Citations
32.5%
ٹوٹل
100%
اگر ہم پاکستان کی جامعات اور یہاں پر ہونے والی سائنسی تحقیق کے معیار و کارکردگی کو جانچنا چاہتے ہیں تو ہمیں بین الاقوامی تسلیم شدہ پیمائشPerformance Metrics کے اصولوں کو مدِ نظر رکھنا ہوگا اور ایسے معیارات Standards کو اختیار کرنا ہوگا جن کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے، نیز یہ معیارات ایسے ہوں جن کی پیمائش بھی ممکن ہو، مثلاً اگر ہمیں اس بات کا معیار جانچنا ہے کہ جامعات اور انڈسٹری میں کتنا تعاون ہو رہا ہے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ انڈسٹری جامعات کو کتنا معاشی تعاون کررہی ہے اور اس سلسلے میں کتنی فنڈنگ کا اجراء کرچکی ہے، اس کے لیے جو عالمی سطح پر پیمانہ متعین کیا گیا ہے کہ وہ یہ ہے کہ فی کس سائنسدان اپنی جامعہ میں انڈسٹری سےکتنی فنڈنگ لا رہا ہے، تاکہ تحقیق و تدریس کو فروغ دیا جاسکے۔ اسی طریقے سے ہم نے دیکھا کہ عالمی سطح پر جو جامعات کی عالمی رینکنگ کی جاتی ہے اور ان کا معیار اور کارکردگی جانچی جاتی ہے، اس کے اندر مختلف کارکردگی کے پیمائشی طریقوں کو تسلیم کیا جاتا ہے، جن کو ہم نے ٹیبل نمبر۲ میں بیان کردیا ہے۔ اب ہم ان عالمی معیارات کو سامنے رکھ کر بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ عالمی سطح پر پاکستان کی جامعات اور ان کے اندر ہونے والی تحقیق کا کیا معیار ہے؟ نیز سائنسی تحقیق میں اُن کی کارکردگی کیا ہے؟

نوبل پرائز، دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان اور پاکستان کا اس میدان میں موازنہ

اب ہم دو مختلف عالمی تسلیم شدہ پیمانوں Nobel Prize اورHighly Cited Researcher کی مدد سے پاکستان کی جامعات کی کارکردگی اور ان میں ہونے والی تحقیق کے معیار کی پیمائش کرتے ہیں۔ نوبل پرائز مختلف شعبہ جات مثلاً: طبیعات، کیمیا، طب، لٹریچر، امن، اکنومکس وغیرہ میں دیا جاتا ہے۔ چونکہ ہم سائنس کی بات کررہے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سائنس کے شعبہ جات کے اندر پاکستان کی جامعات میں کام کرنے والے کتنے سائنسدانوں کو نوبل پرائز دیئے گئے ہیں اور پاکستان کی کارکردگی اس ضمن میں کیا ہے؟ کیا پاکستان کی جامعات‘ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کوئی ایسی تحقیق کرسکیں جس کی بنیاد پر ان جامعات میں کام کرنے والے سائنسدانوں اور پروفیسرز حضرات کو عالمی سطح پر مانا گیا ہو اور ان کوسائنس کے شعبہ جات کے اندر پاکستان کے اندر تحقیق کی بنیاد پر نوبل پرائز کے انعام سے نوازا گیا ہو؟ ۱۹۰۱ ء سے لے کر ۲۰۲۰ ء تک مجموعی طور پر ۶۰۳ نوبل پرائز ۹۶۲ شخصیات کو دیئے جاچکے ہیں، جن میں طبیعات Physics میں ۱۱۴، کیمیا Chemistry میں ۱۱۲، طب Medicine میں ۱۱۱ نوبل انعام دئیے جاچکے ہیں اور دنیا کے چار ممالک امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اور فرانس، وہ ممالک ہیں جن کے سائنسدانوں کے پاس سب سے زیادہ نوبل پرائز ہیں [6,7]۔ اس سارے موازنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نوبل پرائز کے معیار پر کتنے پیچھے ہیں۔

ٹیبل نمبر ۳: مختلف ممالک کے اندر دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں کی تعداد

امریکہ
2650
چین
770
برطانیہ
514
جرمنی
345
دوسرا پیمانہ یعنی ’’دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان‘‘ Highly Cited Researcher کے تناظر میں پاکستان کی جامعات اور اُن کے اندر ہونے والی تحقیق کی صورتِ حال بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں۔ صرف طبیعات Physics کے شعبہ کے اندر کُل ۱۷۹ سائنسدانوں میں پورے پاکستان کا ایک بھی سائنسدان ’’دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان‘‘ Highly Cited Researcher کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل اگر ہم امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک کی بات کریں تو وہاں پر مختلف سائنسی شعبہ جات کے اندر ’’دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں‘‘ کی بھرمار ہے (دیکھیے: ٹیبل نمبر ۳)۔ اگر ہم جامعات کے حساب سے بات کریں تو اکیلے ہارورڈ یونیورسٹی Harvard University کے اندر ۱۸۸، اسٹینفورڈ یونیورسٹی Stanford University کے اندر ۱۰۶، آکسفورڈ یونیورسٹی University of Oxford کے اندر ۵۲ اور کیمبرج یونیورسٹی University of Cambridge کے اندر ۴۶ ’’دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان‘‘ مختلف سائنسی شعبہ جات کے اندر موجود ہیں ۔[8] اس کے علاوہ اگر دیگر ایوارڈز دیکھے جائیں تو پاکستان کے پاس نہ ہی کوئی IEEE Fellow ہے اور نہ ہی ACM Fellow ہے۔

آبادی کے تناسب سے پاکستان کی سائنسی دنیا میں کارکردگی

آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو سائنسی دنیا کے اندر ہماری کارکردگی قابلِ ستائش نہیں ہے اور یہی حال کچھ ہماری جامعات کے اندر ہونے والی سائنسی تحقیق کا بھی ہے۔ اگر ہم پاکستان سے کئی گنا چھوٹے ملک آئرلینڈ کا جائزہ لیں تو آئرلینڈ کی کل آبادی پاکستان کے شہر کراچی سے بھی کم ہے، مگر اس کے برعکس اس کے پاس کئی نوبل پرائز ونر ہیں، اور ۳۳ ’’دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان‘‘ کا ٹائٹل ملنے والے سائنس دان بھی موجود ہیں۔ جامعات کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو آئرلینڈ کے پاس ۲۰ کے قریب جامعات ہیں، مگر ان میں تحقیق کا معیار اتنی اعلیٰ قسم کا ہےکہ وہ دنیا کے ۲۰۰ بہترین جامعات کے اندر اپنا نام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی تناظر میں اگر پاکستان کی جامعات کی تعداد دیکھیں تو پاکستان میں ۲۲۹ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر جامعات موجود ہیں (ایچ ای سی کی ویب سائٹ کے مطابق: جولائی ۲۰۲۱ء)۔ نیز اگر ہم ان جامعات کے اندر اساتذہ کی تعداد دیکھیں تو وہ کُل ۴۷۳۹۳ ہے، جس میں سے ۱۴۶۱۴ پی ایچ ڈی حامل اساتذہ ہیں، یعنی ۳۵۲۴ خواتین پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد ہے اور ۱۱۰۹۰ مرد پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی جامعات کے اندر تقریباً ۳۰ فیصد اساتذہ پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل ہیں۔ نیز پاکستان کی ایک ایسی جامعہ، کامسیٹس یونیورسٹی بھی ہے جس کے پاس ایک ہزار سے زیادہ پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد ہے۔[9] چونکہ ابھی ہمارا موضوع پاکستان میں سائنسی تحقیق کے گرتے ہوئے معیار کے سدِباب پر تجاویز دینا نہیں، لہٰذا ہم اس سے احتراز کرتے ہوئے اپنے موضوع پر رہتے ہیں۔ ان سب تفصیلات جاننے کے بعد ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر سائنسی تحقیق کا معیار عالمی سطح کا نہیں ہے۔ نیز پاکستان کی جامعات بھی عالمی سطح پر اپنا لوہا نہیں منوا سکیں۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک ہم اجتماعی سطح پر بہترین سائنسدانوں کی کھیپ تیار نہیں کرسکے۔ ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ انفرادی سائنسدان ابھی بھی پاکستان میں موجود ہیں جو کہ پوری جان لگا رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستانی سائنسدان عالمی اداروں میں بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

دینی مدارس، عصری علوم اور سائنسی تحقیق

اس تمام تناظر کے اندر اگر ہم دینی مدارس کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کچھ دینی مدارس نے عصری علوم کے اندر بھی رسوخ پیدا کرنا شروع کردیا ہے۔ اس ضمن میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وفاق المدارس کے قائدین اور اکابر علمائے کرام کی کوششوں سے حکومتِ پاکستان (ہائیر ایجوکیشن کمیشن) کی جانب سے درسِ نظامی مکمل کرنے والے علماء کی تعلیمی اسناد کو ماسٹرز کے مقابل سمجھا جانے لگا ہے۔ نیز کچھ مدارس خاص طور پر ایسے رجالِ کار تیار کررہے ہیں جو کہ عصری علوم میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

علمائے کرام کا عصری علوم بالخصوص سائنسی تحقیق اور پی ایچ ڈی P.H.D کی طرف راغب ہونا

اس سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ جو علمائے کرام درسِ نظامی اور تخصص سے تکمیل حاصل کررہے ہیں، ان میں سے کچھ حضرات عصری جامعات کا بھی رخ کررہے ہیں، تاکہ وہاں سے ایم فل MPhill اور پی ایچ ڈی P.H.D کی ڈگریاں حاصل کرسکیں۔ اور مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ ان کی تعداد میں روزبروز اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے، مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے فارغ التحصیل علمائے کرام اور مفتیانِ کرام تحقیق کے لیے جن عصری جامعات کا رخ کررہے ہیں، تاکہ وہ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرسکیں، وہ ہماری پاکستان کی ہی جامعات ہیں اور جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا کہ عالمی سطح پر پاکستان کی جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کا معیار وہ نہیں ہے، جو کہ ترقی یافتہ مما لک کا ہے، لہٰذا سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آئے گا کہ کس طریقے سے وہ سائنسی استعداد اور قابلیت بنائی جائے، جو کہ عالمی سطح پر معیاری سائنسی تحقیق کے لیے درکار ہے۔ نیز یہ مسئلہ صرف علمائے کرام یا مفتیانِ کرام تک ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ جو بھی طالب علم ان پاکستانی عصری جامعات سے پی ایچ ڈی ڈگری کا حصول کرے گا، اُس کو یہ مسئلہ درپیش آئے گا، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ محض ڈاکٹر کا ٹائٹل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حصول مقصود نہ ہو، بلکہ سائنسی استعداد اور قابلیت بڑھانے پر توجہ دی جائے، تاکہ عالمی معیار کی تحقیق کی جاسکے اور سائنسی میدان میں ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کیا جاسکے۔ 

حوالہ جات

]1 [ N. Promwongsa et al ‘‘A Comprehensive Survey of the Tactile Internet: State -of -the -Art and Research Directions,‘‘ in IEEE Communications Surveys & Tutorials, vol. 23, no. 1, pp. 472 - 523, Firstquarter 2021. 
]2[ https//:www.nobelprize.org/ 
]3[ https//:amturing.acm.org/ 
]4[ https//:www.ieee.org/membership/fellows/index.html 
[5[https//:recognition.webofscience.com/awards/highly-cited/2020/ 
]6[https//:www.economist.com/graphic-detail/2018/05/10/the-hierarchy-of - countries - winning - nobels -in -the -sciences
[7[ https//:www.theguardian .com / science / datablog /2016 /oct/ 08/ which - countries -have - had - the - most - nobel - prize - winners 
]8[ Highly Cited Researcher 2020 Annual Report, Online at: https:// recognition. webofscience .com / awards / highly - cited / 2020/ 
[9[ https//: www.hec.gov.pk/english/services/students /PCD/Documents /University Fulltime Faculty . pdf 

 

 (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین