بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دینی مدارس اور اکیسواں ترمیمی بل ! خدشات وتحفظات اور لائحہ عمل

دینی مدارس اور اکیسواں ترمیمی بل! خدشات وتحفظات اور لائحہ عمل

۲۸؍ ربیع الاول ۱۴۳۶ھ ،مطابق۲۰؍ جنوری۲۰۱۵ء بروز منگل کو جامعہ کے ناظمِ تعلیمات واستاذِ حدیث مولاناامداد اللہ صاحب دامت برکاتہم کے صاحبزادے حافظ محب اللہ کے حفظِ قرآن کی تکمیل کی مناسبت سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں ایک سادہ اورپُروقار تقریب منعقد ہوئی، جس میں قائد ِجمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ مہمانِ خصوصی تھے۔ تقریب کا آغاز مصر سے تشریف لائے ہوئے ایک قاری صاحب کی پرسوز تلاوت سے ہوا، تلاوت کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہٗ نے مہمانانِ گرامی کے لیے ترحیبی کلمات ادا فرمائے۔ بعد ازاں وفاق المدارس العربیہ کے ناظمِ اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری مدظلہٗ اور ان کے بعد مولانا سعید یوسف صاحب (پلندری) نے مختصر وپراثر خطابات کیے۔ آخر میں میرِ مجلس قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں مفصل اور پُر مغز خطاب کیا، جس میں عالمی قوتوں کے عزائم ، ترمیمی بل کے پسِ منظر وپیشِ منظر اور اس کے متعلق اپنے موقف اوردرپیش مشکلات کا تجزیہ پیش کرکے پاکستانی قوم، دینی طبقہ اور اہل مدارس کے مستقبل کے لیے راہِ عمل کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اس تقریر کو جامعہ کے ایک طالب علم محمد انس پٹیل (درجہ رابعہ) نے ضبط کیا ہے۔ افادۂ عام کی خاطر ہدیۂ قارئین ہے۔

ألحمدللّٰہ وکفٰی وسلامٌ علی عبادہٖ الذین اصطفٰی، أمابعد: فأعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمۃ للمؤمنین، ولا یزید الظالمین إلا خساراً صدق اللّٰہ العظیم حضرت مخدومِ مکرم مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر صاحب! برادر ِمکرم حضرت مولانا امداد اللہ صاحب! جامعہ کے ذمہ داران و اساتذہ کرام ! اس اجتماع میں موجود تمام اکابرین اور میرے عزیز طلبہ ! میںاپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتاہوں کہ پیارے محب اللہ کی حفظِ قرآن کی تکمیل کی اس تقریب میں اہلِ علم کی صف میں شامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی برکات سے اس تمام اجتماع کو شرف یاب و سرفراز فرمائے! تلاوت وتدریسِ قرآن کی مجالس کا مقام جناب رسول اللہ a کا ارشاد ہے:  ’’ما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللّٰہ، یتلون کتاب اللّٰہ و یتدارسونہٗ بینھم إلا نزلت علیھم السکینۃ و غشیتھم الرحمۃ و حفتھم الملائکۃ و ذکرھم اللّٰہ فیمن عندہٗ۔‘‘ (صحیح مسلم،ج:۲،ص:۳۴۵) یعنی رسول اللہa کا ارشاد ہے کہ: لوگوں کی ایک جماعت اللہ کے کسی گھر میں اکٹھی ہوجائے اور اس میں وہ اللہ کی کتاب کو پڑھیں اور ایک دوسرے کو سمجھائیں، اس مجلس پر اللہ کا پہلا اور نقد انعام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر سکینہ نازل فرماتے ہیں، یعنی اگردلوں میں پریشانی اور اضطراب ہے، دلوں کی دنیا میں پراگندگی ہے، تو ایسی مجالس میں شریک ہونے والے لوگو ں کی ان پریشانیوں، اضطرابات،پراگند گیوں کو اللہ تعالیٰ سکینہ، طمانیت اور اطمینان میں تبدیل فرمادیتے ہیں۔ اور علماء فرماتے ہیںکہ سکینہ ‘دل کی اس کیفیت کا نام ہے جوانوار کے نزول کے وقت طاری ہوتی ہے ۔ ایسی مجلس پر اللہ کا دوسرا نقد انعام یہ ہوتا ہے کہ اس کی رحمت اس مجلس کو ڈھانپ لیتی ہے۔  اور تیسرا نقد انعام یہ ہے کہ ملائکہ اس مجلس کو گھیر لیتے ہیں اور اس کے شرکا ء پر رشک کرتے ہیں اور انہیں اپنی وہ بات یاد آتی ہے کہ تخلیق انسان کے وقت انہوں نے کہاتھا : ’’أَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَائَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ۔‘‘ (البقرۃ:۳۰) ترجمہ:’’کیاآپ زمین میں ایسی مخلوق پیداکریں گے جواس میں فسادمچائے اورخون خرابہ کرے؟  حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اورحمدوتقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘  وہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اس انسان کی تخلیق میں کیا حکمت تھی ! ہم نے کیا سوچا تھااور اللہ نے ایسی مخلوق پیدا کردی جو اللہ کا کلام پڑھتی ہے، اس کو سمجھتی ہے ، اس کو اپنی عملی زندگی میں لاتی ہے، اپنے اندر کو بھی روشن کرتی ہے اور اپنے ظاہر کو بھی منور کرتی ہے ۔ اور چوتھا انعام یہ ہے کہ جب انسانوں کی یہ جماعت روئے زمین پر اللہ کو یاد کرتی ہے تو اللہ اپنے ہم نشینوں میں ان لوگوں کو یاد کر رہے ہوتے ہیں۔ کتنا عظیم شرف ہے کہ کوئی مسلمان اللہ کے ساتھ اس قدرربط قائم کرلے کہ روئے زمین پر وہ خدا کو یاد کرے تو اللہ تعالیٰ اپنی محفل میں اُسے یاد کرے!! رب العزت ہمارے اس اجتماع کو جناب رسول اللہ a کے اس ارشاد کا مصداق بنائے ، آمین!!  تہنیت وتبریک  میں اپنے برخوردار حافظ محب اللہ کومبارک باد دیتا ہوں، اس کے والدین اور اس کے ان تمام ساتھیو ں کوبھی جو حفظ قرآن میں مشغول ہیں، اس کی تکمیل کر رہے ہیں اور بالخصوص اس پورے جامعہ اور ان بچوں کے اساتذہ کو جن کی محنتوں سے یہ بچے آج اس نور کے حامل ہوگئے۔ مدارس واہلِ مدارس کی کردارکشی کیوں؟ میرے محترم دوستو! کوئی اس خدمت کی قدر کرے یا نہ کرے، ہم امریکہ اور بین الاقوامی قوتوں سے درخواست نہیں کر رہے کہ آپ ان مدارس کی قدر کریں، ہم اپنے ملک کے حکمرانوں سے بھی نہیں کہتے کہ از راہِ کرم آپ ان مدارس کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ لیکن ہم اپنی قوم سے اوراس دھرتی کے مسلمانوں سے ضروریہ التماس کرتے ہیں کہ ان مدارس کی قدر کو جانو۔ آج دنیا میںاسلام کے خلاف پروپیگنڈے ہو رہے ہیں۔ یاد رکھئے! قرآن کریم کے خلاف براہ راست گفتگو نہیں کی جاسکتی اورشاید اللہ کے دین کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنانابھی ان کے لیے ممکن نہ ہو، لہٰذا جو دین والے ہیں اور دین کی خدمت کر تے ہیں اور دینی علوم سے وابستہ ہیں، ان کی کوئی بھی انسانی کمزوری مل جائے تو بات کا بتنگڑ بنا کر پیش کر دیتے ہیں، تا کہ دین کا کام کرنے والوں کی کردار کشی ہو تو دین کا کام خود بخود رُکے گا۔ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ آپ کا پہلا حربہ نہیں، جب وحی اتاری جا رہی تھی، تب بھی تو شیطان کی فوج نے اور شیطانی قوتوں نے یہ کوشش کی تھی، اللہ کی اس امانت کو جو آسمانِ دنیا سے روئے زمین پر لانے والی شخصیت حضرت جبریل mکو بھی تو مجروح کیا گیا تھا کہ اتنی دور سے اور اتنے طویل فاصلوں سے ایک ایک لفظ کو صحیح صحیح اور ترتیب کے ساتھ لانا کیسے ممکن ہے ؟ !یقینا اس میں کہیں ردوبدل ہوا ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ حضرت جبرئیل m کی اس خدمت کو مشکوک بنا دیا جائے تو وحی پر اعتماد اُٹھ جا ئے گا، لیکن رب العزت نے ان لوگوں کے اس پروپیگنڈے کو رد کرتے ہوئے فرمایا: ’’إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ، ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْنٍ، مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِیْنٍ۔‘‘(التکویر:۱۹-۲۱) کہ یہ کسی عام آدمی کی بات نہیں ہے، ایک محترم پیغام رساں کی بات ہے ، ایسا محترم پیغام رساں جو اپنی ذات میں طاقت وراور عرش والے کے ساتھ رہتا ہے اور عرش والے کی رفاقت اُسے نصیب ہے اورمعمولی شخصیت نہیں ہے: ’’مُطَاعٍ‘‘ اکیلے نہیں آرہا، ملائکہ کے حفاظتی دستے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ،کوئی شیطانی حربہ اس امانت پر ہا تھ ڈالنے کی جرأت نہیں کرسکتا ،’’ثَمَّ أَمِیْنٍ‘‘ اپنی ذات میں بھی وہ امانت دار، اپنی ذات میں بھی وہ محترم اور خارجی لحاظ سے اس کی نسبت بھی اتنی عظیم کہ تمام زندگی عرش والے کے پڑوس میںرہا اور پھرملائکہ کی صورت میں حفاظتی دستے بھی ساتھ ساتھ آرہے ہیں، لہٰذامطمئن رہو کہ جو کلام ہم نازل کر رہے ہیں، اس کا ایک ایک لفظ ،زبر، زیر اور ترتیب کے ساتھ محفوظ ہے اور اس میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔  جب ان شیطانی قوتوں کی یہ سازش ناکام ہو گئی تو پھر جناب رسول اللہ a کی ذات کو نشانہ بنایا، چونکہ اس زمانہ میں شعر و ادب عروج پر تھا، شعراء کی فصاحت و بلاغت دنیا میں رواج پا چکی تھی اور ہر شخص عرب شعراء کے کمال کا معترف تھا، اس لیے یہ پروپیگنڈا کردیا کہ فصیح و بلیغ کلا م سنانا کون سی بڑی بات ہے؟ یہ تو ہمارے شعراء بھی سناتے ہیں، لہٰذا یہ بھی کوئی شاعر ہی ہوگا اور یہ معجزات تو کوئی جا دو گری معلوم ہوتی ہے، اس معاشرے میں جا دوگری اور شاعری کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ وہاں آسمانی شیطان‘ ملائکہ کے خلاف پرو پیگنڈا کر رہے تھے اوریہاں زمینی شیطان ‘ جناب رسول اللہa کے خلاف پرو پیگنڈا کر رہے تھے ،اللہ تعالیٰ نے اس پروپیگنڈے کو بھی رد کرتے ہوئے فرمایا: ’’إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ، وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ، قَلِیْلاً مَّا تُؤْمِنُوْنَ، وَ لَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ، تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ ‘‘                       (الحاقۃ:۴۰-۴۳)  یعنی اُسے کسی عام آدمی کی بات نہ سمجھو، یہ بڑی محترم شخصیت کی بات ہے، جو نہ شاعر ہیں نہ جا دوگر اورجو کچھ وہ بیان کر رہے ہیں، وہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ جب اس وحی کو نازل کرنے والی ذات کو اور جس مبارک شخصیت پر یہ وحی نازل ہوئی، ان کو بھی نہیں بخشا گیا تو پھر آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ آج کے اس دور میں آپ کو بخشا جائے گا؟ ! حق وباطل کی دائمی کش مکش اور موجودہ حالات یہ حق اور با طل کی لڑائی تو قیامت تک چلے گی، جب انسان پیدا ہوا تو ساتھ ہی حق اور باطل بھی پیدا ہوئے ہیں، اور دینِ اسلام اور قرآنِ کریم پر اسی طرح چودہ سو سال گزر ے ہیں، تاریخ اسلام میںکتنے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے، حکومتیں ملیا میٹ ہوئیں، کتب خانے جلا دئیے گئے۔ کہا جاتاہے کہ سب سے بڑا اورمضبوط نگران‘ حکومت ِوقت ہوا کرتی ہے، تو ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ حکومت ِوقت کی نگرانی کا تصور بھی ختم ہو گیا، ان تمام حالات سے اللہ کایہ کلام گزرا ہے ۔  لیکن جیسے رسول اللہ a نے امت کے حوالے کیا تھا، آج بھی اپنے انہی الفاظ اور اسی ترتیب کے ساتھ موجود ہے۔ یہ کشمکش کا دور چلتا رہاہے اور چلتا رہے گا۔ مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان مدارس کی بنیاد اخلاص کے ساتھ اورقرآن وحدیث کی خدمت کے جذبے سے ڈالی گئی ہے اور جس چیز کی بنیاد اخلاص سے ڈالی جائے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  ’’لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلٰی التَّقْوٰی مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ۔‘‘        (التوبۃ:۱۰۸) ’’البتہ وہ مسجدجس کی بنیادپہلے دن سے تقویٰ پررکھی گئی ہے، وہ اس بات کی زیادہ حقدارہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔‘‘ ان کے اندر پڑھنے پڑھانے والے بھی پاکیزہ ہوئے۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں کیا کیا باتیں ہو رہی ہیں اور مختلف واقعات کو دینِ اسلام اور اخوتِ اسلام کے خلاف کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ نائن الیون کا واقعہ ہوا تو پہلے سے دماغوں میں بنا ہوا ذہن اچھل کر باہر آیا، سوچا نہیں کہ ہم نے اس پرکیا رد عمل دینا ہے۔ اس واقعے پر دنیا کے سامنے فوری رد عمل یہ سامنے آیا کہ صلیبی جنگ شروع ہوگئی،یعنی ہم نے مسیحیت کی طرف سے اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ کسی نے سمجھایا کہ تم نے یہ کیا کہہ دیا؟ اس سے دنیامیں تمہارا امیج خراب ہوگیا ہے، تب ایجنڈے کا دوسرا درجہ بیان کیا کہ دنیا میں تہذیبوں کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔پھر کسی نے سمجھایا کہ یہ کیا کہہ دیا؟ اسلام اور امتِ مسلمہ تو اپنی تہذیب پر جان بھی دے دیتی ہے، تو پھر تیسرے مرحلے میں یہ بیان جاری کیا گیا کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ لیکن اس واقعہ کو اسلام اور امتِ مسلمہ کے خلاف استعمال کیاگیا، آپ کے علم میں یہ بات ہونی چا ہیے کہ یہ واقعہ ۲۰۰۱ء میں ہوا، جبکہ ۲۰۰۲ء میںفرانس میں نیٹو کا اجلاس ہوا ، جس کے ایجنڈے میں تھا کہ ۱۹۴۹ء میں۲۸؍ یورپی ممالک پر مشتمل نیٹو اس لیے قائم ہوئی تھی تا کہ سوویت یونین کی توسیع پسندی کو روکا جائے اور اس کے خلاف یورپ کا ایک د فاعی ادارہ ہو، چونکہ وہ مقصد حاصل ہوگیا،اس لیے اب نیٹو تحویل ہو جانی چاہیے۔ لیکن فوراً کہا گیا کہ نہیں! ابھی اسلا م اور مسلمان ہمارے لیے چیلنج ہیں، لہٰذا یہ اتحاد برقرار رہنا چاہیے۔  پھر امریکہ کی طرف سے یہ بات سامنے آئی کہ ترقی پذیر ممالک کی جغرافیائی حدود حتمی نہیں ہیںاور یہ بیان بھی آیا کہ بیسویں صدی برطانیہ کی تھی اور دنیا کی جغرافیائی تقسیم برطانیہ کے مفادات کے تابع تھی، اب اکیسویں صدی ہماری ہے، لہٰذا دنیا کی جغرافیائی تقسیم بھی ہمارے مفادات کے تابع ہوگی۔ انہوں نے اپنا پورا ایجنڈا آپ پر واضح کر کے دیا ہے، لیکن پھر بھی ہم لوگ پریشان ہو جاتے ہیں اور ہمیں اپنے موقف کے بارے میں تردد ہوجاتا ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا کے حکمران‘ امتِ مسلمہ کاساتھ نہیں دے سکتے، ان کی اپنی مجبوریاں ہیں، وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دے رہے ہیں، لہٰذا جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، چاہے افغانستان کی صورتِ حال ہو یا عراق ، شام،لیبیا اور یمن کے حالات، ان سب چیزوں کو آپ اس پہلو سے ضرور دیکھیں کہ کہیںیہ ترقی پذیر دنیا کی نئی جغرافیائی تقسیم کا پہلا مرحلہ تو نہیں!!! اس بات کو مدنظر رکھیں۔  جب ۲۰۱۰ء میں امریکہ کی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے بیان دے دیا تھا کہ ہم نئی مشرقِ وسطی تشکیل دیں گے، آج ہم مشرقِ وسطی میںجو منظر دیکھ رہے ہیں، کیا ہم اس کو نئے مشرقِ وسطیٰ کی تشکیل کے اس ارادہ و عزم سے الگ اوراس سے لا تعلق کر سکتے ہیں؟ وطنِ عزیز کو در پیش صورتِ حال ہمارے اہل ِ علم کو دنیاکے ان حالات کو ضرور مد نظر رکھنا چاہیے کہ دنیا کا ایجنڈا کیاہے؟ اور اس کے لیے کس چیز کو تباہ کیا جا رہا ہے ؟ اس کا نشانہ اسلام اور مسلمان کیوںہیں؟ میں پارلیمنٹ میں کہہ چکا ہوں اور اپنے حکمرانوں کو بھی متنبہ کرتا ہوں کہ اگران کا ایجنڈا یہ ہے کہ نئی جغرافیائی تقسیم مقصود ہے تو پھر پاکستان کے مغرب میں۲۳۰۰ کلومیٹر کی افغانستان سے وابستہ پوری سرحد کوسرحد نہیں کہا جا رہا، بلکہ آج بھی ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ سے موسوم ہے۔ دنیا کی کتابوں میں’’پاک افغان بارڈر‘‘ موسوم نہیں ہے۔ دوسری طرف مشرقی سرحد کو آپ دیکھیں، کشمیر کی طویل ترین سرحد کو بھی ’’کنٹرول لائن‘‘ کہا جا رہا ہے، وہ بھی صرف لا ئن ہے، آپ کا بارڈر نہیں ہے اوراقوام متحدہ کے قانون کے تحت متنازعہ علاقہ ہے۔جب ہماری مغربی اورمشرقی سرحدوں کا یہ عالم ہے تو پھراس وقت ایشیا میں اس بین الاقوامی ایجنڈے کا آسان ترین نشانہ پاکستان کے علاوہ اور کون ہو سکے گا؟ آپ ان چیزوں کو کیوں نہیں سوچ رہے؟ اس حدتک دبائو میں کیوںجارہے ہیں؟ موجودہ حالات کا ذمہ دار کون؟     یہ سب حالات ہیں اور ہم نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دیا ہے اور میں آج آپ حضرات کے سامنے بھی وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جنگ ہماری ضرورت نہیں ۔یہ جنگ آپ کی طرف سے ہے، یہ جنگ آپ کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہی ہے، یہ مسلمانوں کے ایجنڈے کی تکمیل نہیں۔ اور جنگ یک طرفہ نہیں لڑی جاتی ، بلکہ اس کے لیے دشمن بھی چاہیے ، اگر ہمارے ماحول میں شدت پسندی  یا جسے آپ ’’دہشت گردی‘‘ کہتے ہیں، اس کا ما حول موجود ہے تو یہ بھی آپ کی ضرورت اورآپ کا پیدا کردہ ہے ،یہ مسلمانوں کا پیدا کردہ ماحول نہیں ہے ۔ آپ مدار س کی بات کرتے ہیں تو مدارس تو دور کی بات ہے، یہ مدارس آپ کے لیے آسان نشانہ بن گئے ہیں، حقیقت توہم جانتے ہیں، لیکن ابھی ہم اس بحث کو نہیں کھولنا چاہتے کہ یہ عسکری جتھے کس نے بنائے؟ میرا ایک طالب علم جس کا نام فلاں ولد فلاں تھا، اس کو ترغیبات کس نے دیں؟ جہاد ِافغانستان کی ترغیبات کس نے دیں؟ جنگ کی تربیت کس نے دی؟ کلاشنکوف کی تربیت کس نے دی؟ راکٹ لانچر کی تربیت کس نے دی؟ بم بنانے کی تربیت کس نے دی؟ بم پھاڑنے کی تربیت کس نے دی؟ یہ سارے اعلیٰ ترین جنگی وسائل کس نے سکھائے؟ اور اس غریب طالب ِعلم کو جو فلاں ابن فلاں کے نام سے کسی مدرسے سے نکلا یا کسی تعلیمی ادارہ سے نکلایا ہماری سوسائٹی سے نکلا، آگے جاکر اس غیر فوجی کو فوجی ٹریننگ اور جنگی تربیت کس نے عطا کی؟ اور پھر بھی بڑی آسانی سے کہہ دیا کہ یہ  مدرسہ سے فارغ ہے اوراس کا الزا م مدرسہ پر لگایا جارہا ہے۔ میں نے اس دن آل پارٹیزکانفرنس میں بھی اور پارلیمنٹ میں بھی یہ بات کھل کر کہی ہے کہ دبائو صرف مدارس پر کیوں ہے؟ آپ کے نیشنل ایکشن پلان میں مدرسے کی رجسٹریشن اور اس کی ضابطہ بندی کا لفظ کیوں لکھا گیا ہے؟ یہ جو آج کل آپ پھانسیوں پر پھانسیاں دے رہے ہیں، ذرا  بتائیے کہ ان میں مدرسہ کا کون سا طالب علم ہے؟ یہ دہشت گردی حملہ میں ملوث لوگ کون ہیں، جن کو آپ پھانسیاں دے رہے ہیں؟ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں میں مدرسے والا کون ہے؟ مہران ائیر بیس پر حملہ کرنے والوں میںکونسا مدرسے کا طالب علم ہے؟ کامرہ ائیر بیس پر حملہ کرنے والوں اور پشاور ائیر بیس پر حملہ کرنے والوں میں سے کوئی ایک تو بتا ئو کہ کونسا مدرسہ کا طالب علم ہے؟ نشان دہی تو کردو۔ اس طرح تو نہ کرو کہ ’’استادتوبے گناہ ہوا اور شاگرد گناہ گار ہو گیا‘‘ اوراب شاگرد کو ذبح کیا جا رہا ہے، اورکہا جارہا ہے کہ شاگرد نے سب کچھ کیا، میں نے کچھ نہیں کیا اور مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا، میں تو کسی تنظیم کو نہیں جانتا ، دامن صاف! ’’رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔‘‘ انصاف سے کام لیا جائے۔ جس وقت یہ بحث آئی تو ہم نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کا لفظ کس لیے لکھا ہے؟ کہنے لگے کہ: جی! بہت سے مدارس جو بغیر رجسٹریشن کے ہیں۔ میں نے کہا: حکومت کے درمیان اس قسم کے قانون کی ترمیم پر اتفاق ہو گیا تھا۔ آپ لوگ کبھی سوال اٹھاتے ہیں کہ مدارس میں پیسہ کہا ںسے آتا ہے؟ تو اس میں فنڈ کا معاملہ مالیاتی نظام طے کردئیے گئے تھے۔ آپ کہتے ہیں کہ مدارس کا نصاب دہشت گردی اور انتہا پسندی سکھاتا ہے، تواس میں مدارس کے نصاب تعلیم پربھی اتفاق کیا گیا کہ یہ نصاب تعلیم کوئی انتہا پسندی نہیں پھیلارہا، مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوگا؟ یہ واضح کیا گیا اور اس اتفاق رائے کے بعد ۲۰۰۵ء میں تر میمی آرڈیننس آیا، جس کی قانون سازی مرکز اور صوبوں میں ہوئی، اب کون سی آفات بیچ میں آگئی ہیں کہ دوبارہ قانون سازی کی ضرورت پیش آگئی؟  معروضی صورت حال اور قانون سازی میں نے ایک اور بات بھی کہی کہ ہر وقت آپ لوگوں کے نشانہ پر مذہبی لوگ ہوتے ہیں کہ یہ مذہبی لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں ، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں، تفرقہ اور نفرت پھیلارہے ہیں، وغیرہ وغیرہ ، میں نے کہا کہ ’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ کے نعرے پر اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے۶۷؍سال پہلے ایک پاکستان قائم ہوا تھا، اس کے بعد اس ملک کے اندرد اخلی جغرافیائی اُکھاڑ پچھاڑمیں کبھی کسی شیعہ نے کہا کہ مجھے اپنا صوبہ دو؟ کبھی کسی سنی نے کہا کہ مجھے اپنا صوبہ دو، میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا؟ کبھی کسی دیوبندی نے کہا کہ اس علاقہ کا ڈویژن دیوبندیوں کا ہونا چاہیے؟ کبھی کسی بریلوی نے کہا کہ فلاں ضلع بریلویوں کے نام کرو؟ لیکن یہ مہاجر سندھی کا سوال پیدا کرنا، سرائیکی اورپنچابی کا سوال پید ا کرنا، پختون بلوچ کا سوال پیدا کرنا، یہ ہزارہ اور پختون کا سوال پیدا کرنا، یہ سب آپ حضرات کی کارستانیاں نہیں ہیں؟ یہ بنگال لسانیت کی بنیاد پر نہیں ٹوٹا؟ آپ کے نعروں سے نفرتیں پیداہو رہی ہیں۔ حقوق کے نام پر تعصب پیدا کر رہے ہو، ملک کو اند ر سے توڑ رہے ہو، کبھی لسانیت کی بنیاد پر صوبہ کا، کبھی ملک کا نعرہ اور کبھی ملک سے آزادی کے نعرے، کبھی ملک کو اندر سے جغرافیائی طور پر تقسیم کرنا، یہ ساری آپ کی کارستانیاں ہیں، ملک کے اندر کی جغرافیائی اکھاڑ پچھاڑ کے آپ ہی ذمہ دار ہیں اور آپ ہی اس کے نعرے لگاتے ہیں، کبھی کسی مذہبی آدمی نے کہا ہے کہ ملک کو میرے عقیدے اور فکر کی بنیاد پر تقسیم کردو؟ کہتے ہیںکہ یہ آپس میں لڑتے ہیں، میں نے کہا:اس لیے لڑتے ہیں کہ قانون سازی نہیں ہے ،حدود متعین نہیں ہیں، محرم میں فوج کو لے آتے ہو، راستوں میں کھڑا کر دیتے ہو، قیام ِامن کے لیے شہر کو فوج کے حوالہ کردیا، رینجرز کے حوالہ کردیا، اس حوالے سے قانون سازی کیوں نہیں کر رہے؟ تاکہ اگر کوئی مکتب فکر یا کوئی فرقہ اپنا ایک غلط یا صحیح تہوار مناتا ہے تو اس کی حدود تو متعین ہوں، کسی دوسرے کو تکلیف تو نہ دے، ایک دوسرے کی دل آزاری تو نہ کرے، لیکن سڑسٹھ سال گزر گئے اور آپ نے اس سلسلے میں قانون سازی نہیں کی۔ میلاد کا جلوس آتا ہے، امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا، شہر فوج کے حوالہ کردیا، رینجرز کے حوالہ کردیا ،فلاں فلاں علاقے حساس قرار دے دئیے گئے اور پھروہ جلوس خیر خیریت سے گزر جاتا ہے، قانون سازی نہیں ہوتی۔ اور تو چھوڑیں، یہ رئویت ہلال کمیٹی کو دیکھیں،میں نے ایک مولوی صاحب سے کہا کہ اس کمیٹی کی حیثیت قاضی کی ہے اوریہ جو فیصلہ دے گی تو اس کا فیصلہ حتمی ہوگا اور ہم پر اس کاماننا لازم ہوگا، انہوں نے کہا: اگر یہ قاضی ہے تو قاضی کا فیصلہ کوئی نہ مانے تو اس کو سزا ہوتی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا: سزا توہوتی ہے ،کہنے لگے: بتائو قانون کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ قانون تو نہیںہے، کہنے لگے کہ قانون نہیں تو پھر یہ قاضی نہیں۔ اور کیوں قانون سازی نہیں ہورہی؟ تاکہ جب بھی کوئی فساد ہو تو مذہب کی طرف لوگو ں کی انگلیاں اُٹھیں، کیا ریاست نے اپنی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کرنی؟ ۶۷؍ سال ہوگئے کہ ان فتنوں سے ہم گزر رہے ہیں۔ اکیسواں ترمیمی بل ۔۔۔۔۔ ہمارا موقف اور تحفظات چنددن قبل پنجاب کے وزیر ِاعلی صاحب میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ جی مساجد کو خود حکومت کنٹرول کرنا چاہتی ہے، یہاں سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ میںنے کہا: حضرت! میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ پھرآپ کا افسر جاکر کسی مولوی کے کان میں یہ نہ کہے کہ مولوی صاحب! آج ذرا تقریر ٹھوک کر کرنی ہے، یہ فلاں محلے کا دوسرا مولوی بڑا بدمعاش ہوگیا ہے، آپ کے خلاف بولتا ہے، میرے مولوی کو شدید تقریر پر آمادہ بھی تو آپ لوگ کرتے ہیں، تمہاری ایجنسیاں کرتی ہیں، فسادات تو آپ لوگ پھیلاتے ہیں، آپ خدا کے لیے ہمیں نہ لڑائیں، ہم تو نہیں لڑنا چاہتے، آپ لوگ اپنا فرض تو ادا کریں۔ ۱۹۵۱ء کی اسلامی نفاذ کی تحریک سے لے کر ایم ایم اے تک تمام مکاتبِ فکر کی قیادت نے قومی وحدت پر کام کیا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کیا ہے، ریاست اپنا فرض تو ادا کرے، لیکن وہ نہیں کرنا۔ پھر کہا گیا کہ ہر وہ مسلح تنظیم جوریاست کے خلاف اسلحہ اٹھائے اور مذہب یا فرقے کا نام لے،اُسے ملٹری کورٹ میں پیش کیا جائے۔ ہم نے کہا: دہشت گردی، دہشت گردی ہوتی ہے، اس سے مذہب کا کیا تعلق ہے؟ اس سے قومیت کا کیا تعلق ہے؟ کہتے ہیں: نہیں، یہ جو پشاور کا واقعہ ہوا ہے۔ میںنے کہا: آپ یہ بتائیں کہ قانون کسی اصول کے تحت بنتا ہے یا کسی واقعہ کی بنیاد پر بنتا ہے؟ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا توکیا دہشت گردی نہیں ہورہی؟ چلو ایک واقعہ ہو گیا، اس واقعے سے لوگوں کے جذبات بھڑک اُٹھے، بڑے معصوم بچے اس میں شہید ہوگئے، پورا صوبہ ہزارہ اور مالا کنڈ سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان تک کے بچے وہاںپڑھ رہے تھے، ہماری اپنی جماعت کے بہت سارے لوگوں کے بچے وہاں پڑھ رہے تھے، کچھ شہید ہو گئے، کچھ زخمی ہو گئے، یقینا اس پر ہم سب کو ناراضگی ہے، اب اگر آپ قانون بناتے ہیں توقانون ضرور بنائیں،لیکن دو چیزیں مد نظر ہونی چاہئیں۔ ایک قانون کے اندر جامعیت ہو، جو اس موضوع کے ہر پہلو کا احاطہ کرے،اور دوسری چیز یہ کہ اس قانون کے امتیازی طور پراستعمال کے احتمال کو ختم کیا جائے۔ تحفظِ پاکستان آرڈیننس آیا تو ہم نے اس وقت بھی یہی کہا کہ یہ کسی کے خلاف بھی ناجائز استعمال نہ ہو، جو دہشت گرد ہے، ملکی قانون کو توڑتا ہے اور ریاست کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے، اس کو سزا ملے۔ اب جناب! اس پر لڑائی شروع ہو گئی، ہم ڈٹ گئے کہ نہیں! یہ امتیازی قانون ہے، عموماً ایک قانون بن جاتا ہے تو اس کے بننے کے بعد یہ احتمال ہو تا ہے کہ یہ امتیازی استعمال ہو رہا ہے یا ہوسکتا ہے، یہاں تو یہ قانون اپنے مسودہ میں چیخ چیخ کر خود پکارتا ہے کہ میں نے امتیازی استعمال ہونا ہے۔ ہم دہشت گردی کے حامی نہیں یہ تأثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید ہم مذہبی دہشت گردوں کو یامذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو بچا رہے ہیں۔ میں نے کہا: ایسا نہیں ہے، اگر یہ لکھا گیا کہ ’’ہر وہ مسلح تنظیم جو ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھائے اور لسانیت کا نام لے‘‘ تومیں اس کی مخالفت کرو ں گا، کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ اس قانون نے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف امتیازی طور پر استعمال ہونا ہے، لہٰذا ہماری بات کو سمجھا جائے۔ بات چلتی گئی، ہم نے کہا کہ اگر مذہب اور فرقہ کانام کاٹنے کا آپ یہ معنی لیتے ہیں کہ ہم مذہب کے نام پر دہشت گردوں کو تحفظ دے رہے ہیں توہم اس سے دست بردار ہوجاتے ہیں، لیکن پھر آگے اس کے ساتھ یہ بھی لکھیں کہ مذہب کا نام استعمال کرے یا فرقہ کا استعمال کرے یا لسانیت ، نسل پرستی ،قومیت یا علاقائیت کانام استعمال کرے، یہ ساری چیزیں بھی لکھیں، اور میں نے یہ باتیں اس لیے کہیں کہ خود آئین کے اندر جدولی جرائم کی فہرست میںہے کہ نسل، عقیدہ، قومیت، برادری اور علاقائیت پر مبنی تعصبات جرائم تصور کیے جائیں گے، لہٰذا آئین کے انہی الفاظ کو لے کریہاںلگا دیاجائے تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ یہ آئین سے باہرکا کوئی تصور ہے جس کو آپ نے آئین کا حصہ بنا دیا ہے۔ اب یہ بات بھی اگر نہیں مانی جارہی تو ہم کہاں جائیں؟ہم دیکھ رہے ہیں کہ پورے ملک میں مدارس پر چھاپے لگ رہے ہیں، کتب خانوں پر چھاپے لگ رہے ہیں ، دو سال پہلے کسی نے تقریر کی ہے تو آج اس کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جارہی ہے، علماء گرفتار ہورہے ہیں، ہمیں نظر آرہا ہے کہ یہ قانون امتیازی استعمال ہو رہا ہے۔ کہنے لگے کہ: آپ ایسی بات کیوں کر رہے ہیں کہ خدانخواستہ یہ مذہب کے خلاف استعمال ہوگا؟ میں نے کہا کہ بنگلہ دیش کو جاکر دیکھو، چوالیس سال پہلے آپ نے اپنے وہاں پر قدم مبارک رکھے تھے، اس کی برکات آج بھی ظاہر ہو رہی ہیں، روز کسی نہ کسی کی پھانسی کا آرڈر کیا جارہا ہے، مذہب کے نام پرسیاست پر پابندی لگائی جا رہی ہے، اسلامی جمہوریہ بنگلا دیش کے بجائے اب ریپبلکن بنگلہ دیش لکھا جائے گا۔ میرے بھائیو!وہاں اس لیے یہ ہورہا ہے کہ مذہبی لوگ سیاسی طور پر منظم نہیں ہیں، ورنہ وہ آپ سے کم مسلمان نہیں ہیں، ہمارے مدارس سے بڑے بڑے مدارس وہاں ہیں، لیکن چونکہ سیاسی لحاظ سے منظم نہیں ہیں، اس لیے تنہا وہاں ایک ایک مار کھا لیتا ہے۔ لہٰذا یہ وقت ہے کہ ہم پوری وحدت کامظاہرہ کریں، میں نے سابق ایم ایم اے کی جماعتوں کو بلایا، سب نے اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا۔ تنظیماتِ مدارس ِدینیہ کا اجلاس ہوا، سب کا اس بات پراتفاق تھا کہ ہمارا موقف درست ہے، اب ہمیں مل کر جنگ لڑنی ہوگی۔ بھائی! ہم تو آپ کے ساتھ ہیں، ہم تو دہشت گردی کے خلاف آپ کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہیں، ہم تو آپ کے پشت پناہ ہیں، جب کسی قسم کے تحفظات سامنے رکھے بغیر ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، تمام مکاتب فکر نے آپ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، پوری قومی وحدت وجود میں آگئی، تمام پارلیمنٹ ایک تھی توآپ نے ایسی حرکت کرکے ملک کو کیوں تقسیم کردیا؟ یہ ساری چیزیں ہیں جنہیںمد نظر رکھتے ہوئے ہمیںبات کرنی ہوگی۔ انتہاپسند کون؟ آپ یہ بھی دیکھیں کہ ہمیں انتہاپسند کہا جاتا ہے، انتہاپسندی اور مدارس ،مسجد اور مُلا کی بات کی جاتی ہے۔ وہاں گوانتا ناموبے میںقرآن کریم کو جلانا ،گٹروں میں پھینکنا، مسلمان قیدیوں کی آنکھوں کے سامنے ناپاک قدموں کے ساتھ قرآن پر چڑھ جانا، کیا یہ انتہاپسندی نہیں؟ یہ شرافت ہے تمہاری؟ اور پھر اس سے ردِ عمل پیدا نہیں ہوگا؟ اس سے امت ِمسلمہ کی دل آزاری نہیں ہوگی؟ امریکہ میں ایک کنیسا کے اندربا قاعدہ قرآن کو جلانے کی تقریب ہوتی ہے، کیا یہ انتہا پسندی نہیں ہے؟ بیلجیم میںمساجد پر حملے کیے گئے، قرآن کوجلا یا گیا، کیا یہ تمہاری انتہا پسندی نہیں ؟پہلے ڈنمارک میں اور اب فرانس میں جناب رسول اللہ a کے خاکے شائع کیے گئے، اگر دنیا کی آبادی ۶؍ ارب ہے تو پونے۲؍ارب مسلمان ہیں، تم دنیا کی اتنی بڑی آبادی کی دل آزار ی کر رہے ہو، تم اسلام کے شعائر کا مذاق اڑائو، پھر بھی تم اعتدال پسند ہوئے۔یادرکھنا! مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے، لیکن رسول اللہ a کی عزت وناموس پر ہمہ وقت مر مٹنے کے لیے تیار ہوتاہے۔ ان دنوںہمیں جو صورت ِحال در پیش ہے، اس کے پیشِ نظر آج کے اس اجتماع سے میں نے فائدہ اٹھالیا، تاکہ میں اپنے حلقے، اپنے علماء اور اپنے مدارس کو آگاہ کر سکوں۔ ہم اپنے موقف کو دلیل کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہمارا کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے، پاکستان کی تاریخ ہمارے سامنے ہے،حالات ہمارے سامنے ہیں، آئین کی رو سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی تو آئین کا تقاضا ہے، اس پر تو چالیس سال سے قانون سازی نہیں کی جارہی اور اس قسم کی قانون سازیاں آرہی ہیں اور قوم پر مسلط کی جا رہی ہیں۔ جامعہ سے قلبی تعلق کا اظہاراور دعائے عافیت  یہ ادارہ حضرت بنوری v کا بنایا ہوا ہے اور انہوں نے اس کی بنیاد رکھی ہے۔ رب العزت اس ادارہ کو ہمیشہ آباد رکھے اور یہاں کی روحانیت،یہاں کی رونقیں ہر وقت تروتازہ رہیں، آمین! میں کراچی آتا ہوں تویقین جانیے! جب تک جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون میں حاضری نہیں دیتا ، میں کراچی کے سفر کو ادھورا سمجھتا ہوں۔ یہا ں آتا ہوں، مولانا سید سلیمان یوسف بنوری کو دیکھتا ہوں، مولانا سید احمدبنوری (نبیرۂ حضرت بنوری v واستاذِ جامعہ) کو دیکھتا ہوں تو آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں کہ یہ وہ اسرئہ طیبہ ہے اور یہ وہ نسبت ہے جو ہمارے سامنے ہے، یہاں کے اساتذہ کو میں اپنے اساتذہ کا مقام دیتا ہوں۔ دعا کریں کہ اللہ ہم پر امتحان اور آزمائش نہ لائے۔ رسول اللہ a نے فرمایا:’’سلوا اللّٰہَ العافیۃَ۔‘‘ ۔۔۔۔’ ’اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو۔‘‘ حضرت عباس q جناب رسول اللہ a کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا: ’’ یا رسول اللّٰہ! علمنی شیئًا أسالہُ اللّٰہ۔‘‘۔۔۔۔’’کوئی ایسی بات بتا دیں کہ میں اللہ سے مانگوں۔ آپ aنے فرمایا: ’’سَلْ رَبَّکَ الْعَافِیَۃَ۔‘‘۔۔۔۔’’اللہ سے عافیت مانگو۔‘‘ کچھ عرصہ کے بعد پھر حاضر ہوئے اور پھر عرض کیاکہ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیں جو میں اللہ سے مانگوں؟ آپ aمتوجہ ہوئے اور آپ aنے فرمایا: ’’ یا عباس! یاعمَّ رسولِ اللّٰہ! سلِ اللّٰہَ العافیۃَ فی الدنیا والآخرۃ۔‘‘ (مجمع الزوائدللہیثمی،۱۰/۱۷۵) ’’اے عباس! اے رسول اللہ (a)کے چچا! اللہ سے دنیا اور آخرت دونوں کی عافیت مانگا کرو۔‘‘ اور رسول اللہ a نے فرمایا: ’’لاتتمنوا  لقائَ العدو، وسلوا اللّٰہَ العافیۃَ فإذا لقیتم فاثبتوا۔‘‘(صحیح بخاری،۱/۴۲۴،قدیمی) ’’دشمن کا سامنا ہونے کی تمنائیں مت کیا کرو ،بلکہ اللہ سے عافیت مانگاکرو، لیکن اگر سامنا مقدرہوجائے تو پھرڈٹ جائو۔‘‘  بہرحال یہ وقت ہے ہمارے اکٹھے ہونے کا۔ ہم دہشت گرد نہیں ہیں، نہ دہشت گردی ہماری ضرورت ہے۔یہ جنگیں ہم پر مسلط کی گئی ہیں۔ بتایاجائے کہ کس جرم میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہاہے؟ کس جرم میں آج مدارس کو ذبح کیا جا رہاہے؟ صرف اپنے جرائم چھپانے کے لیے؟ کوئی قوت اس کی کوشش نہ کرے اور نہ ہم اتنے بے خبر ہیں کہ اپنا جرم چھپانے کے لیے آپ مدارس کوموردِ الزام ٹھہرائیں اور ہم مان لیں۔ یہ جنگ ہم نے آئین اور قانون کے دائرے میں لڑنی ہے، کوئی ہنگامہ آرائی اور فساد نہیں کرنا۔ ہم ایک ملک کے آزاد شہری ہیں ،اپنا حق رکھتے ہیں۔ اور اگرامتیازی طور پرکوئی قانون کسی کے بھی خلاف بنے گا، چاہے مذہبی لوگو ں کے خلاف ہو ،چاہے قوم پرستوں کے خلاف ہو،چاہے لسانیت والوںکے خلاف ہو توہم ضرور کہیں گے کہ یہ قانون غلط ہے۔ آپ حضرات ہمارے لیے دعابھی کریں۔ ہم اسمبلی میں تھوڑے تو ہیں،لیکن دعائوں سے ہمارے اندر قوت آجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا کرتا ہے۔ وأٰخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین