بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا محمد یوسف مجاہد الحسینی رحمہ اللہ کی رحلت

حضرت مولانا محمد یوسف مجاہد الحسینی رحمہ اللہ کی رحلت


شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہٗ کے مریدِ باصفا، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، علامہ شمس الحق افغانی رحمہم اللہ تعالیٰ کے شاگردِ رشید، دارالعلوم اسلامیہ ڈابھیل کے فارغ التحصیل، قافلۂ احرار کے رکنِ رکین، حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ کے دیرینہ سپاہی، عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے عظیم جرنیل، کئی کتابوں، مجلات اور اخبارات کے مصنف و ایڈیٹر حضرت مولانا محمد یوسف مجاہد الحسینی رحمہ اللہ  اس دنیائے رنگ و بو میں ۹۳ برس گزار کر عالمِ آخرت کی طرف راہی ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطی وکل شییٔ عندہ بأجل مسمّٰی۔
اس دنیا میں آنا ہی جانے کی تمہید ہے، اس لیے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  جیسی شخصیت اور ہستی جب اس دنیا میں نہ رہی تو کسی اور انسان کو اس دنیا میں ہمیشگی رہنا کیسے نصیب ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہر ایک انسان کا جانا تو طے اور مقدر ہے ہی، لیکن کامیاب ہیں وہ لوگ جو اس دنیا میں آنے کے بعد اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی سمجھ کر اور اسے رضائے حق اور خدمتِ خلق میں گزار کر اُسے توشۂ آخرت بناکر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ انہی باکمال لوگوں میںسے ایک حضرت مولانا محمد یوسف مجاہد الحسینی  ؒ بھی ہیں۔
آپ کی پیدائش ۴؍ جنوری ۱۹۲۶ء کو سلطان پور لودھی، ریاست کپورتھلہ ضلع جالندھر میں ہوئی۔ والدین نے آپ کا نام محمد یوسف رکھا، آگے چل کر آپ کا قلمی نام مجاہد الحسینی اتنا مشہور ہوا کہ آپ کا اصلی نام چھپ گیا اور علمی دنیا آپ کو مجاہد الحسینی کے نام سے ہی جانتی تھی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ خیرالمدارس جالندھر میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم و فراغت ۱۹۴۴ء میں دارالعلوم اسلامیہ ڈابھیل سے ہوئی۔ آپ کے اساتذہ کرام میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، علامہ شمس الحق افغانی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا محمد مسلم، مولانا خیر محمد جالندھری  رحمۃ اللہ علیہ  شامل ہیں۔ 
دینی و علمی حلقوں میں مولانا مجاہد الحسینی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ کی ساری زندگی عقیدئہ ختم نبوت کی حفاظت میں گزری۔ آپ نے ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء کی تحریکِ ختم نبوت میں ایک مجاہد اور سپاہی کا کردار ادا کیا۔ عقیدئہ ختم نبوت کی خاطر کئی بار جیل بھیجے گئے۔ تحریکِ ختم نبوت میں مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ  سمیت جیل میں موجود اکابر کی نمازوں میں امامت کی مستقل ذمہ داری آپ نے نبھائی۔ مولانا مجاہدالحسینی  رحمہ اللہ  تحریکِ ختم نبوت ۱۹۵۳ء کے عظیم رہنما امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری  رحمہ اللہ  کے رفیق اور جانشینِ امیرِ شریعت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری  رحمہ اللہ  کے ہم درس تھے۔ وہ روزِ اول سے مجلسِ احرارِ اسلام سے وابستہ تھے۔ مجلسِ احرارِ اسلام پاکستان کے ترجمان روزنامہ آزاد لاہور ، روزنامہ نوائے پاکستان لاہور ،  ہفت روزہ خدام الدین لاہور اور اپنے جاری کردہ  ہفت روزہ ساربان لاہور اور ماہنامہ صوت الاسلام فیصل آباد کے مدیر رہے۔ مختلف اخبارات اور رسائل و جرائد میں ان کے مضامین اور کالم شائع ہوتے رہے۔ انہوں نے پاک و ہند کے جید علماء و مشائخ، دینی و سیاسی رہنمائوں، صحافی، ادباء اور شعراء کو دیکھا اور ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔ وہ تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے عینی شاہد تھے، جبکہ تحریکِ ختمِ نبوت میں باقاعدہ حصہ لیا۔ مولانا مجاہدالحسینی  رحمہ اللہ  ایک کہنہ مشق صحافی ، نثر نگار اور خطیب تھے۔ انہوں نے شاعری بھی کی، چند نعتیں، نظمیں اور غزلیں کہیں۔ 
آپ کی تصنیفات درج ذیل ہیں: معاشیاتِ قرآنی، تعلیم القرآن، سیرت و سفارتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  (صدارتی ایوارڈ یافتہ)، خطباتِ امیرِ شریعت، مشاہیر کی تقریریں، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا نظامِ خدمتِ خلق، شاہ ولی اللہؒ کے دیس میں، حج و عمرہ (ادائیگی کا آسان طریقہ)، سفرنامہ ارض الاسلام، اسلام اور زرعی معاشیات، آخری جیل کے آخری قیدی، علماء دیوبند عہد ساز شخصیات، فضیلت و طریقۂ نماز، مولانا ابوالکلام آزاد کی مرزا قادیانی کے جنازے میں شرکت (بہتان کا حقیقت افروز تجزیہ)، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا نظامِ امنِ عالم، نیز آپ نے امیر شریعتؒ کے حوالے سے بھی ایک کتاب لکھی ہے جو زیرِ طباعت ہے۔ ان کی کتاب ’’سیرت و سفارتِ رسول‘‘ پر انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 
مولانا مجاہد الحسینی ختم نبوت کے جاںباز سپاہی تھے۔ زندگی کی آخری سانس تک اس کے لیے کوشش کرتے رہے۔ بیماری کے دنوں میں بھی آنے والوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ کرتے رہے اور بسترِ مرگ پر بھی فیصل آباد میں بڑے پیمانے پر ختم نبوت کانفرنس کروانے کے ارادے کا اظہار کیا۔ انہیں کچھ دن پہلے دل کی تکلیف ہوئی تھی۔ ۱۹؍ ربیع الثانی ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۹ء علی الصبح ہسپتال میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ نمازِ جنازہ ٹیکنیکل ہائی اسکول ڈی گرائونڈ کی مسجد میں مجلسِ احرارِ اسلام کے مرکزی رہنما مولانا سیّد کفیل شاہ بخاری نے پڑھائی، جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ بعدازاں پیپلز کالونی ڈی گرائونڈ کے قریب قدیم قبرستانِ صدیقیہ میں انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔پسماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹی اور ایک بیٹا پروفیسر ابوبکر صدر ہیں۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ نے مولانا مجاہد الحسینی کے انتقال پر ان کے صاحبزادے پروفیسر ابوبکر صدر سے ٹیلیفون پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ملی و دینی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا، انہوں نے کہا کہ مولانا مجاہد الحسینی اکابر کی آخری نشانی تھے۔ ان کی شخصیت کو دیر تک یاد رکھا جائے گا۔ 
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا محمد یوسف مجاہد الحسینی رحمہ اللہ  کی تمام علمی و عملی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کو جنت الفردوس کا مکین بنائے۔ آپ کے لواحقین، پسماندگان اور معتقدین کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ ادارہ بینات اپنے قارئین سے ایصالِ ثواب کی درخواست کرتا ہے۔ 

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین