بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

بر صغیر اور عرب ممالک میں طبع شدہ مصاحف کا رسم الخط ( علمی وتقابلی جائزہ! )

بر صغیر اور عرب ممالک میں طبع شدہ مصاحف کا رسم الخط  علمی وتقابلی جائزہ!

    یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم سے پہلے جتنی کتابیں نازل ہوئیں، ان کی حفاظت ان امتوں کے اہل علم کے سپرد تھی، مگر قرآن کریم وہ عظیم الشان اور آخری آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : ’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ۔‘‘ (الحجر:۹)     قرآن کریم کے نزول سے لے کر آج تک اس عظیم کتاب پر جو تحقیقی اور علمی کام ہوا ہے، اور اسی طرح ہر دورمیں جو بے شمار حفاظ، قراء اور مفسرین گزرے ہیں، وہ اِس حفاظت ِایزدی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، اور مسلمانوں کاسر فخر سے بلند ہے کہ ان کے پاس جو قرآن کریم ہے لفظاً وحرفاً یہ بعینہ اُس قرآن کریم کے مطابق ہے جسے کاتب و حی حضرت زیدبن ثابت ؓ اور دیگر صحابہ کرام s نے حضور اکرم a کے حکم سے قلمبند کیا تھا۔     صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ قرآن کریم حضور اکرم a کی نگرانی میں اِس قدر محبت و اخلاص کے ساتھ تیار کیا تھا کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے ایسا دوام اور شرف قبولیت بخشا کہ آج چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک ایک لفظ کا رسم الخط نہ صرف کتابوں میں محفوظ ہے، بلکہ عالم اسلام میں طبع شدہ مصاحف کی شکل میں بھی محفوظ ہے، جسے ’’رسم عثمانی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت عثمان q کے زمانے میں اسلام کے عرب وعجم میں پھیل جانے کی بنا پر اکثر قرآن کریم کی قراء ات میں اختلاف ہوجایا کرتا تھا، اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے حضرت عثمان q نے عہد ِنبوت میں لکھے جانے والے قرآن کریم کو سامنے رکھ کر قرآنی نسخے تیار کرائے، جو مختلف علمی مراکز میںاس طرح ارسال کیے گئے کہ ہر ایک قرآنی نسخے کے ساتھ ایک ایک ماہر قاری بھی روانہ کیا گیا، تاکہ کتاب اور استاذ دونوں کی مدد سے ایسے حفاظ اور قاری تیار ہوں جو علم وعمل دونوں کا پیکر ہوں۔ (المقنع ص:۹، الوسیلۃ ،ص:۷۵، سفیر العالمین،ج:۱،ص:۳۱)     چناچہ ایک نسخہ د مشق اور ایک نسخہ مکہ مکرمہ اور دونسخے عراق( کو فہ اور بصرہ) روانہ کیے گئے اور دو نسخے مد ینہ منورہ کے لیے تیار کیے گئے۔ ان میں سے ایک حضرت عثمان q کے ذاتی استعمال کے لیے تھا جو ’’مصحف مدنی خاص‘‘کے نام جانا جاتا ہے، اور دوسرا ’’مصحف مدنی عام‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، اور دمشق والا’’مصحف شامی‘‘ مکہ مکرمہ والا ’’مصحف مکی ‘‘ کوفہ والا ’’مصحف کوفی‘‘اور بصرہ والا’’مصحف بصری‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ چھ عدد مصاحف ’’مصاحف عثمانیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، وہ تمام روایات جو علمِ رسم کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں، خواہ وہ امام دانی ؒ(وفات: ۴۴۴ھ) کی ــ’’المقنع‘‘ میں ہوں، یاامام ابوداؤد ؒ(وفات: ۴۹۶ھ) کی شھرۂ آفاق کتاب ’’مختصر التبیین لہجاء التنزیل‘‘میں، یہ تمام کی تمام روایات انہی’’مصاحف عثمانیہ ‘‘سے ہیں۔     اِن مصاحف عثمانیہ کا رسم الخط ’’رسم عثمانی‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، اور یہی رسم عثمانی قرا ء اتِ متواترہ کی بنیاد اور اصل ہے۔ علماء قرا ء ات کے نزدیک کسی متواتر قرا ء ت کے ثبوت کے لیے جن تین بنیادی شرائط کا ہونا ضروری ہے، ان میں رسم عثمانی کی مطابقت اور موافقت بھی شامل ہے، تحقیقی ہو یا تقدیری یعنی حقیقی ہو یا احتمالی ۔ اِن مصاحف عثمانیہ میں لکھے جانے والے قرآنی کلمات ‘نقطوں یا اعرابی حرکات سے یکسرخالی تھے، تاکہ لکھی ہوئی آیات کو زیادہ سے زیادہ قراء اتِ متواترہ کے مطابق پڑھا جاسکے، ہاں! البتہ وہ اختلافی قراء ات جو ایک مصحف میں دونوں طرح نہیں آسکتی تھیں، انہیں حضرت عثمان q نے مختلف مصاحف میں اس طرح لکھوا یا کہ ایک قراء ت ایک مصحف میں ، تو دوسری قرا ء ت دوسرے مصحف میں آجائے، جیسے سورۂ بقرہ (آیت:۱۳۲) میں ’’  ووصّٰی‘‘بعض مصاحف میں، اور’’وأوصٰی‘‘باقی مصاحف میں اور سورۂ توبہ(آیت:۱۰۰) میں ’’ مِنْ تحتھا‘‘ میں ’’مِنْ‘‘کے اضافے کے ساتھ مصحف مکی میں، اور بغیر’’مِنْ‘‘ کے باقی مصاحف میں۔ اسی طرح سورۂ آل عمران(آیت:۱۳۳) میں’’سارعوا‘‘بعض مصاحف میں۔ اور ’’وسارعوا ‘‘،’’و ‘‘کے اضافے کے ساتھ باقی مصاحف میں ۔اگر آپ کا مصحف روایت حفص میں ہے تو اِن مذکورہ بالا رسم کے اختلافات میں آپ مصحف کوفی کے پابند ہوںگے۔ اور اگر آپ کا مصحف روایتِ قالون یا روایت ورش میں ہے تو آپ مصحف مدنی کے پابند ہوں گے، اور اگر آپ کا مصحف روایت ِدوری بصری میں ہے تو آپ مصحف بصری کے پابند ہوںگے ۔ (النشر۱/۷، الاتقان۲/۳۹۳)     اِن مصاحف عثمانیہ میں کچھ کلمات میں حذف و اثبات میں بھی اختلاف ہے ،یعنی کسی مصحف میں ایک قرآنی کلمے کا الف محذوف ہے تو کسی دوسرے مصحف میں یہی الف ثابت بھی ہے ، ایسے کلمات کی بے شمار مثالیں ہیں جو امام دانی vاورامام ابوداؤد v وغیرہ نے اپنی کتابوں میں درج کی ہیں۔     مذکورہ بالا صورت میں آپ دونوں قراء ت میں سے کسی بھی ایک کے مطابق قرآن کریم لکھ اور چھاپ سکتے ہیں۔ امام خرّازvکے مندرجہ ذیل شعر کی شرح میں علامہ ابن آجطّا vفرماتے ہیں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وفی العظام عنہما فی المؤمنین وغیر أول بتنزیل أتین

کلا والأعناب بغیر الأولین لکن عظامہ لہ بالألف

وکل ذلک بحذف المنصف     ’’فخرج من ہذا أن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عن أئمتہم‘‘مفہوم اردو میں یہ ہے کہ :     ’’تو اِس سے پتہ چلا کہ لفظ ’’العظام‘‘اور لفظ ’’أعناب‘‘ ان ائمہ رسم : امام دانیؒ، امام ابو داؤدؒ، اور(منصف) کے مصنف امام ابو الحسن البلنسیؒ (وفات بعد :۵۶۷ھ) کے نزدیک ان کے مذاہب اور ان کی بیان کردہ اُن روایات کے مطابق ہیں جو انہوںنے اپنے شیوخ یا پھر عثمانی مصاحف سے نقل کی ہیں، ان کے مذاہب اور روایات کے مطابق ان دونوں مذکورہ لفظوں’’العظام‘‘اور ’’أعناب‘‘میں الف کے حذف و اثبات میں اختلاف پایا جاتا ہے، اور پھر انہوںنے اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی کہ امام بلنسیؒ اِن دونوں لفظوں میں حذف الف کے راوی ہیں، جبکہ امام دانیؒ ان مذکورہ لفظوں میں اثباتِ الف کے قائل ہیں، ما سوائے اُن دو لفظوں کے جو سورۂ مؤمنون (آیت:۱۴) میں واقع ہوئے ہیں، امام دانیؒ نے صرف اِس لفظ ’’العظام‘‘سے الف حذف کیا ہے جو مذکورہ آیت میں دو مرتبہ آیا ہے ،جبکہ امام ابو داؤدؒ اِن دو لفظوں ’’العظام‘‘اور’’ أعناب ‘‘ے تمام مواقع میں حذفِ الف کے قائل ہیں ، ما سوائے چار کلمات کے، دو ’’العظام‘‘اور دوپہلے والے ’’ أعناب‘‘ ہیں ۔ (التبیان فی شرح مورد الظمآن شرح البیت :۱۲۱-۱۲۳)      چنانچہ مصاحف مغاربہ بلنسیؒ کے مذہب کے مطابق اور مصاحف مشارقہ ابو داؤدؒ کے مذہب کے مطابق اور بر صغیر اور لیبیا کے مصاحف دانیؒ کے مذہب کے مطابق چھپے ہوئے ہیں۔اور ان مصاحف عثمانیہ میں اکثروبیشتر ایسے کلمات ہیں جن کے رسم الخط میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ وہ تمام مصاحف میں ایک ہی رسم الخط کے ساتھ لکھے گئے ہیں، اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ ایسے کلمات کو قرآن کریم لکھتے یا چھاپتے وقت مذکورہ بالا رسم الخط کی پابندی ہر حال میں ضروری ہے او راس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں، چاہے آپ کا مصحف کسی بھی روایت یا قرا ء ت میں ہو۔(البرھان ۲/۱۳۔ الاتقان ۶/۲۱۹۹) اختلافی کلمات اور مذاہب رسمـ     وہ اختلافی کلمات جن کا رسم الخط مصاحف عثمانیہ میں مختلف پایا گیا جن کی تعداد ہزاروں میںنہیں صرف سینکڑوں میں ہے، ان کلمات کو لکھنے یا چھاپنے کے لیے علمائے رسم کے چار مذاہب اور مدارس (سکول آف تھاٹ ) ہیں۔     ۱:…پہلا مذہب یا مدرسہ وہ ہے جو ’’مدرسۃ المشارقۃ‘‘کے نام سے جاناجاتا ہے، جس کے مطابق آج مصر، سعودی عرب ،شام ، عراق اور کچھ دیگر عربی ممالک میں روایتِ حفص یا روایتِ دوری بصری کے مطابق قرآن کریم چھپ رہے ہیں۔      اِس مدرسے میں اختلافی قرآنی کلمات میںاکثرو بیشتر امام ابوداؤدؒ (وفات: ۴۹۶ھ) کی ترجیحات پر عمل کیا جاتا ہے، جو انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’مختصر التبیین لھجاء التنزیل‘‘ میں بیان کی ہیں، کچھ مسائل و کلمات ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں امام ابوداؤدؒ نے اپنی اِس کتاب میں نہ تو کسی روایت کا ذکر کیا ہے اور نہ ہی اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا ہے ، ایسے تمام قرآنی کلمات میں مذکورہ بالا’’مدرسۃ المشارقۃ‘‘ میںجو رائے اختیار کی گئی ہے وہ اثبات الف کی ہے، جو کہ قیاسی رسم الخط کے بھی عین مطابق ہے۔ اِس منہج کو سب سے پہلے امام خرّاز v(وفات: ۷۱۸ھ) نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’مورد الظمآن‘‘ میں بیان کیا اور اس کے بیشتر شرّاح نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے، اوراِ س منہج کو جنہوں نے عملی جامہ پہنایا، وہ ہیں مصر کے مشہور عالم و قاری شیخ رضوان مخلّلاتی (وفات:۱۳۱۱ھ)۔ (انظر التعریف بمصحف المدینۃ بروایۃ حفص)     ۲:…دوسرا مذہب یا مدرسہ وہ ہے جسے علماء رسم ’’ مدرسۃ المغاربۃ‘‘ کا نام دیتے ہیں، جس کے مطابق صدیوں سے مراکش،جزائر، تیونس اورکچھ افریقی ممالک میں روایتِ قالون اور روایتِ ورش میں قرآن کریم لکھے اور چھاپے جاتے رہے اور چھاپے جارہے ہیں۔     اِس مدرسے میں بھی اختلافی قرآنی کلمات میں اکثرو بیشتر امام ابو داؤدؒ ہی کی ترجیحات پر عمل کیا جاتا ہے، ان کا سابقہ مدرسہ سے اختلاف صرف چندقرآنی کلمات میں ہے ،جن میں سے بیشتر کا تعلق اُن کلمات سے ہے جن کے بارے میں امام ابو داؤدؒ نے اپنی کتاب میں سکوت اور خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، اِس مدرسہ میںایسے قرآنی کلمات میں اثبات کے بجائے امام ابوالحسن البلنسیؒ (وفات بعد:۵۶۷ھ ) کی ترجیحات و اطلاقات کی روشنی میںحذف کو اختیارکیا گیاہے۔ (انظر التعریف بمصحف المدینۃ بروایتَیْ قالون وورش)     میں یہاں بطور مثال صرف ان آیات کا ذکروں گا جن میں لفظ’’عظام‘‘آتا ہے، وہ تمام تیرہ(۱۳) آیات ہیں۔ امام ابوداؤدؒ نے اپنی کتاب ’’مختصر التبیین‘‘ میں ان تمام آیات میں ’’ظائ‘‘ کے بعد والا الف محذوف کرنے کی روایت بیان کی ہے، ما سوائے سورۂ بقرہ اور سورۂ قیامۃ کے، سورۂ بقرہ میں سکوت ،جبکہ سورۂ قیامۃ میں اثباتِ الف کی روایت نقل فرمائی ہے۔ اب سورۂ بقرہ والی آیت میں’’ مدرسۃ المشارقۃ‘‘ اور ’’ مدرسۃ المغاربۃ‘‘ میں اختلاف ہے، مشارقہ اُسے اپنے منہج اور اصول کے مطابق اثباتِ الف کے ساتھ لکھتے ہیں،جبکہ مغاربہ اُسے اپنے منہج اور اصول کے مطابق حذفِ الف کے ساتھ لکھتے ہیں، اس لیے کہ ا مام ابو الحسن البلنسیؒ کے نزدیک اس کا الف محذوف ہے۔     اسی طرح وہ افعال یا اسماء جو تثنیہ کے صیغوں کے زمرے میں آتے ہیں ان کا وہ الف جو غیر متطرف ہے، اس میں بھی اختلاف ہے، مشارقہ کے مصاحف میں امام ابوداؤدؒ کے اختیار اور ترجیح کے مطابق تثنیہ کا الف ثابت ہے، سوائے چار صیغوں کے جن میں مشارقہ نے علامہ ابن عاشرؒ(وفات: ۱۰۴۰ھ) کے مذہب کے مطابق الف کو حذف کیا ہے، جبکہ مغاربہ کے مصاحف میںیہ الف تمام الفاظ تثنیہ میں محذوف ہے، صرف ’’تکذبان‘‘میں ثابت ہے، یہ مذہب انہوں نے امام دانی vکی کتاب’’المقنع‘‘ سے لیا ہے، برصغیرپاک وہند میں چھپنے والے تمام مصاحف میں بھی تثنیہ کے ان تمام الفاظ کے غیر متطرف الف امام دانیv کے مذہب کے مطابق محذوف ہیں ،حتیٰ کہ’’تکذبان‘‘میں بھی محذوف ہے۔(مختصر التبیین:۲/۱۸۸۔ المقنع ، ص:۱۷۔ نثر المرجان:۱/۳۱)     اسی طرح لفظ ’’برکت‘‘سے مشتق تمام الفاظ کے الف مصاحف مشارقہ میں کہیں محذوف تو کہیں ثابت ہیں، جبکہ مغاربہ اور ہندو پاک کے مصاحف میںیہ الف اِن تمام الفاظ میں امام دانی v کے مذہب کے مطابق محذوف ہیں، اس کی مثالیں ہیں ’’مبارک‘‘اور’’مبارکا‘‘اور’’تبارک‘‘ وغیرہ۔(سفیر العالمین: ۲/۱۱۷-۱۱۸) مشارقۃ اور مغاربۃ کے مابین اختلافی کلمات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے راقم کا عربی مضمون جس کا عنوان ہے: ’’ظواھر الرسم المختلف فیھا بین مصاحف المشارقۃ ومصاحف المغاربۃ المعاصرۃ: عرض وتأصیل‘‘ (مجلۃ تبیان للدراسات القرآنیۃ ، الریاض )     ۳:…تیسرا مذہب یا مدرسہ وہ ہے جو امام دانی v (وفات: ۴۴۴ھ) کی کتاب ’’المقنع‘‘ سے لیا گیا ہے، وہ اس طرح کہ وہ الفاظ اور قرآنی کلمات جن کا ذکر آپ نے اپنی کتاب میں کیا ہے، وہ ان کے مذہب کے مطابق یااُن کے کسی قول کے مطابق لکھے جائیں، اور جن کلمات و الفاظ کا آپ نے ذکر نہیں کیا یا ان کا ذکر کرنا بوجہ اختصار ضروری نہیں سمجھا، تو انہیں اصل اور قیاسی رسم الخط کے مطابق الف کے اثبات کے ساتھ لکھا جائے، اسی منہج کو امام شاطبی v نے اپنی نظم’’العقیلۃ‘‘ اور امام خرّاز v نے اپنی کتاب’’مورد الظمآن‘‘میں لکھا ہے، اور ان دونوں کتابوں کے تمام شرّاح نے بھی اس منہج پر اتفاق کیا ہے۔  (ارشاد القراء والکاتبین للمخللاتی۱/۲۷۵،۳۳۱ وسفیر العالمین ۱/۱۱۶، اور مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے راقم کا عربی مضمون جس کا عنوان ہے:’’حکم الألفات التي سکت عنھا الامام الدانیؒ فی کتابہ المقنع: دراسۃ منھجیۃ‘‘مجلۃ البحوث والدراسات القرآنیۃ الصادرۃ عن مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف بالمدینۃ النبویۃ ،العدد الثالث عشر، ۱۴۳۵للھجرۃ‘‘)     اسی منہج کے عین مطابق لیبیا میں ۱۹۸۹ء میں روایتِ قالون کے مطابق قرآن کریم چھاپا گیا، اور اسی منہج کے مطابق ہندو پاک میں بھی قرآن کریم چھاپے گئے، سوائے اُن چند کلمات کے جو امام شاطبیv  اور دیگر علماء رسم کی رائے کے مطابق لکھے گئے ہیں ،جن میں جمع مذکرسالم کے وہ الفاظ بھی شامل ہیں جو قرآن کریم میں ایک یا دو مرتبہ آئے ہیں،جن کے بارے میں خود امام دانی v سے بعض متاخرین کی روایت ہے کہ وہ اِن الفاظ میں قلیل الدور ہونے کی وجہ سے اثبات الف کے قائل ہیں۔(الجامع لابن وثیق ، ص:۳۹ ۔ سفیر العالمین ۱/۷۵)     یہی وجہ ہے کہ ہندو پاک میں چھپنے والے تمام مصاحف میں ایسے جمع مذکر سالم کے تمام کلمات میں الف ثابت ہیں، خصوصاً قدیم مصاحف میں اس کی پابندی زیادہ ہے، بنسبت جدید مصاحف کے جو انجمن حمایت اسلام کے مصحف کے بعد چھاپے گئے ہیں۔     ۴:…چوتھا اور آخری مذہب یا مدرسہ وہ ہے جو امام شاطبیv (وفات:۵۹۰ھ) کی کتاب (عقیلۃ أتراب القصائد) سے لیا گیا ہے جوکہ سابقہ امام دانی v کے مذہب سے چنداں مختلف نہیں، کیونکہ امام شاطبی v نے اپنی اِس کتاب میںامام دانی v ہی کی کتاب’’المقنع‘‘ کو اپنے جچے تلے اشعار کی بدولت دریا کو کوزے میں بند کیا ہے، مگر گنتی کے چند الفاظ ہیں جن میں امام شاطبی v نے امام دانی v سے اختلاف کیا ہے ،ایسے تمام الفاظ میں برصغیر ہندو پاک میں چھپنے والے تمام مصاحف میں امام دانی v کے بجائے امام شاطبی v کی رائے پر عمل کیا گیا ہے، میں اس کی وضاحت صرف دو مثالوں سے بیان کرنا چاہتا ہوں:     پہلی مثال ہے سورۂ شوریٰ (آیت:۲۲) میں’’روضات الجنات‘‘کے دونوں لفظ جو کہ جمع مؤنث سالم کے صیغے ہیں۔ امام دانی v اور امام ابو داؤد v کے بیان کردہ قواعد رسم کے مطابق اِن دونوں الفاظ کے الف محذوف ہونے چاہئیں، مگر اِن دونوں کے الف مشارقہ ، مغاربہ اور لیبیا کے مصاحف میں ثابت ہیں، اس لیے کہ شیخین (دانی vاور ابوداؤدv) نے ان دونوں لفظوں میں اثباتِ الف نقل کیا ہے، مگر امام شاطبی v نے جمع مؤنث سالم کا قاعدہ بیان کرتے وقت اِن دونوں الفاظ کو عام قاعدے سے مستثنی قرار نہیں دیا، گویااِن دونوں الفاظ کے الف امام شاطبی v کے نزدیک قاعدہ مذکورہ کے مطابق محذوف ہی ٹھہریں گے۔(المقنع ، ص:۲۳ ۔ مختصر التبیین ۴/۱۰۹۰۔  سفیر العالمین۱/۸۷)     یہی وجہ ہے کہ برصغیر ہندو پاک میں چھپنے والے تمام مصاحف میں امام دانی v کے بجائے امام شاطبی v کی ترجیحات پر عمل کرتے ہوئے ان دونوں الفاظ میں الف کو محذوف رکھا گیا ہے۔     دوسری مثال لفظ ’’عالِم‘‘ کی ہے جس کے بارے میں امام دانی vنے لکھا ہے کہ صرف سورۂ سبأ میں(آیت:۳) اس کا الف محذوف ہے، باقی گیارہ الفاظ میں الف ثا بت ہے ،چنانچہ مصحف لیبی میں اسی پر عمل کیا گیاہے، مگر امام شاطبی v نے اپنی نظم ’’العقیلۃ‘‘ میں لفظ’’عالِم‘‘ میں مطلقاً الف کو محذوف قرار دیا ہے، چاہے وہ سورہ سبأ میں ہو یا کسی اورسورت میں۔(المقنع ، ص:۸۹، مختصر التبیین:۳/۴۹۴، العقیلۃ ، ص:۱۴)     یہی وجہ ہے کہ بر صغیر ہند وپاک میںچھپنے والے تمام مصاحف میںامام دانی v کے بجائے امام شاطبی v کی ترجیحات پر عمل کرتے ہوئے تمام الفاظ ’’عالِم‘‘ میں الف کو محذوف رکھا گیا ہے ،جو کہ قرآن کریم میں بارہ مرتبہ آیا ہے، اسی طرح کچھ اور کلمات ہیں جن میں قراء اتِ متواترہ کا خیال رکھتے ہوئے امام دانی v اور امام شاطبی v کی رائے کے برعکس چند دیگر علماء کی رائے کے پیش نظر ہندوپاک کے مصاحف میں ایسا رسم اختیار کیا گیا ہے جس سے مختلف قراء ات اخذ کی جاسکیں، اس کی بے شمار مثالیں ہیں جو میںنے اپنی عربی بحث ’’رسم مصحف مطبعۃ تاج: دراسۃ نقدیۃ مقارنۃ ‘‘ میں تفصیل سے ذکر کی ہیں ، جو شاہ فہد کمپلیکس (مدینہ منورہ) کی طرف سے شائع ہوچکی ہے، جو کہ صفر(۱۴۳۶ھ) میں منظر عام پر آجائے گی۔     یہاں میں صرف ایک مثال بیان کروں گا ،وہ ہے لفظ’’أفئدۃ‘‘ جو کہ قرآن کریم میں (۱۱) مرتبہ آیا ہے، تمام جگہ میں فاء کے بعد والا ہمزہ بغیرکرسی (یاء کے شوشے) کے لکھا گیا ہے، مگرصرف سورۂ ابراہیم( آیت :۳۷) میں( أفئدۃ من الناس) میںبر صغیر کے مطبوعہ مصاحف میں یاء کے شوشے کے اوپر ہمزہ لکھا گیا ہے ،اس لیے کہ اس میں ہشام( عن ابن عامر الشامی) کی قراء ت ہے، جس میں وہ ہمزہ کے بعد یاء کا اضافہ بھی کرتے ہیں۔ (نثر المرجان :۳/۳۶۵، إرشاد القراء والکاتبین:۱/۵۸۳)اِن مندرجہ بالا گزارشات کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہندو پاک میں چھپنے والے تمام قرآن کریم امام دانی v کی ’’المقنع‘‘ اور اما م شاطبی v کی ’’العقیلۃ‘‘ کے تقریباً ۹۷،۹۸% فیصد مطابق ہیں۔ ( رسم مصحف مطبعۃ تاج: دراسۃ نقدیۃ مقارنۃ ۔ضمن بحوث ندوۃ طباعۃ القرآن الکریم ونشرہ بین الواقع والمأمول : ۳/۱۲۹۵ )     بر صغیر کے علماء و اکابرین نے قرآنی رسم الخط میں ایسا علمی اور مدلل منہج اپنایا ہے جو کہ صدیوں سے چلا آرہا ہے جس میں قرآن کریم کے ہر ہر لفظ کو علماء رسم کے اقوال کی روشنی میںانتہائی احتیاط سے لکھا گیا ہے ، جو کہ ایک لائق تحسین اور مبارک عمل ہے، ہمیں اِن کی کوششوں اور کاوشوں کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے، بلکہ اِس رسم الخط کی حفاظت بھی کرنی چاہیے، جسے انہوں نے انتھک محنت و اخلاص سے صدیوں سے اپنایا ہوا ہے ۔باقی کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن کی تعداد ۱۵-۲۰ ہے، جو بر صغیر کے مصاحف میں امام دانی v اور امام شاطبی vکے علاوہ دیگر علماء رسم ابوداؤد v وغیرہ کے مذہب کے مطابق ہیں۔ نیز رسم کے علاوہ باقی تمام مسائل چاہے وہ ضبط و شکل سے متعلق ہوں، یا وقوف اور رکوعات سے ،یہ تمام مسائل توقیفی نہیں، بلکہ خالصۃً اجتہا دی ہیں۔     ہاںالبتہ اِن مصاحف میںچند ایک طباعت کی اغلاط ہیں جن کی درستگی کی اشد ضرورت ہے، یہ وہ اغلاط ہیں جن کا شاہ فہد کمپلکس میں چھپنے والے تاج کمپنی (۱۵ سطری)کے مدینہ ایڈیشن میں ازالہ کر دیا گیا ہے،جن کی تعداد دس (۱۰) سے بھی کم ہے، اس لیے شاہ فہد قرآن کمپلکس سے چھپا ہوا پاکستانی قرآن کریم رسم عثمانی کے عین مطابق ہے ،البتہ ضبط و شکل اور وقوف دونوں ہی تمام علمائے رسم کے نزدیک اجتہادی ہیں ،اور وہ ضبط وشکل جو بر صغیر میں طبع شدہ مصاحف میں اختیار کیا گیا ہے وہ عجمیوں (غیر عرب) کے مزاج اور ذوق کے عین مطابق ہے، گو اس میں بہتری کی بہت حد تک گنجائش ہے ۔     شاہ فہد کمپلکس نے مشارقہ اور مغاربہ اور دانی v اِن سب کے منہج کے مطابق بے شمار قرآن چھاپ کر دنیا بھر میں مفت تقسیم کیے ہیں، مشارقہ کے روایتِ حفص اور روایت ِدوری بصری میں، اور مغاربہ کے روایتِ قالون اور روایتِ ورش میں، اور امام دانی vکے روایتِ حفص میں تاج کمپنی مدینہ ایڈیشن کی شکل میں۔شاہ فہد قرآن کمپلکس (مدینہ منورہ) جیسے عظیم اور دنیا کی منفرد ادارے کی خدمت قرآن کریم پر یہ عظیم کاوشیں تاریخ اسلام میں سنہرے حروف میں لکھی جائیں گی اور ان شاء اللہ! رہتی دنیا تک ان خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔       اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اِس قرآن کمپلکس کے ذمہ داران اور سعودی عرب کے فرماںروا شاہ عبداللہ کی اِن اسلامی اور قرآنی بے لوث خدمات کو اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت عطا فرمائے ،اور اللہ تعالیٰ انہیں مزید قرآن کی خدمت کرنے کی توفیق وہمت عطا فرمائے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین