بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اردو ادب کی ترویج و اشاعت  ... علماء اورمدارس کا کردار

اردو ادب کی ترویج و اشاعت  ... علماء اورمدارس کا کردار

 

زبان کسی بھی قوم کے لیے اس کی پہچان سے کم نہیں ہوتی، بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ زبان کسی بھی قوم کی معاشرت کی عکاس ہوتی ہے، الحمدللہ ہماری قومی زبان اردو ہے اور اس میں وہ تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جو ایک متمدن قوم کی زبان میں ہونی چاہئیں اور اب تو اردو زبان کی اہمیت، افادیت اور ضرورت سے انکار کرنا کسی طور بھی ممکن نہیں رہا، جس کی ایک دلیل حالیہ دنوں اقوام متحدہ میں اردو زبان کو عالمی زبان قرار دیا جانا بھی ہے۔
بدقسمتی سے اردو زبان کے عملی نفاذ میں کچھ نادیدہ قوتوں کی طرف سے ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں اور موجودہ دور میں بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے احکامات کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں (انہی کا فرمان ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے) لیکن پاکستانی قوم میں اردو زبان کے حوالے سے بیدار ہوتے شعور کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان شا ء اللہ! عنقریب قومی زبان اردو کو اس کا جائز اور حقیقی مقام مل جائے گا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ باوجود ہزار رکاوٹوں کے اردو زبان کوبلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب کے ایسے لوگ میسر رہے جنہوں نے ہر دور میں اس کا عَلم اٹھائے رکھا اور اس ٹمٹماتے چراغ کو اپنے جذبوں اور عقیدتوں کا تیل فراہم کرتے رہے، لیکن اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح اسے مسلمانوں نے اپنایا، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، بلکہ اس سے بڑھ کر اگر مسلمانوں کو اردو زبان کا موجد کہا جائے تو مضائقہ نہیں، بلاشبہ مسلمانوں نے اردو زبان کی بقا کی جدو جہد کو ہر سطح پر پھیلایا، جس کا اندازہ شیخ الاسلام مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے اس فتویٰ سے بھی لگایاجاسکتا ہے جس کو انہوں نے اس وقت کے معروضی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیا تھا، شیخ  ؒ فرماتے ہیں :
’’ــاردو زبان کی حفاظت چونکہ دین کی حفاظت ہے، اس زبان کی حفاظت حسب ِ استطاعت واجب ہوگئی ہے اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سستی کرنا مصیبت بھی ہوگی اور موجبِ مواخذۂ آخرت بھی ہوگا۔‘‘ (امدادالفتویٰ، جلد: ۴، ص: ۶۵۲)
پھر مسلمانوں میں یہ سہرابھی اکثر علماء اور اہلِ مدارس کے سر رہا، جنہوں نے اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کے لیے اردو زبان کا انتخاب کیا، اپنے نظامِ تعلیم کو اردو میں رائج کیا، مدارس میں تدریسی زبان اردو کو قرار دیا، اپنے مواعظ، تقریر و تحریر کے لیے اردو زبان کا انتخاب کیا۔ جب ہمارے عصری ادارے اپنی قومی زبان سے مایوس اور انگلش زبان سے مرعوب ہوکر اپنے سور ج سے لمعہ افروز ہونے کی بجائے دوسروں کے بجھے چراغوں سے روشنی لینے کی کوششوں میں بڑے شد و مد سے مصروف تھے تو ایسے وقت میں علماء اور مدارس نے اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اس کی حفاظت کی، بلکہ اس میں وہ اتنے مستقیم ہوئے کہ نام نہاد دانشوروں کے طعنے بھی سنے، جدید زبانوں سے نابلد بھی کہا گیا، لیکن وہ اپنی لگن اور دھن میں مگن عوام الناس میں اردو زبان کے فروغ کی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ ۱۸۳۵ء میں انگریز سرکار نے متحدہ ہندوستان میں فارسی زبان کی سرکاری حیثیت ختم کرکے انگریزی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ اسلامی تاریخ و ادب اور اسلامی علوم و فنون کاایک بہت بڑا ذخیرہ علماء نے عربی سے فارسی زبان میں منتقل کیا تھا، جو کئی عشروں سے برصغیر کی دینی و علمی پیاس بجھا رہا تھا، ایسے کڑے وقت میں اکابر علماء نے برصغیر میں اسلام کی بقا کی جدوجہد شروع کی تو انہوں نے اردو زبان میں تمام علوم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور علماء اور مدارس نے اردو دان طبقہ اور اسلام کے آفاقی نظام میں ایک پُل کا کام سرانجام دیا، عربی و فارسی میں موجود تمام اسلامی علوم کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا، عربی میں کی گئی جدید اسلامی تحقیقات کو بھی اردو دان طبقہ تک پہنچایا اور مزید تحقیقی، علمی اور معلوماتی کتابوں سے لائبریریوں کی لائبریریاں بھر دیں اور آج اردو زبان میں جتنے بھی اسلامی علوم و فنون موجود اور محفوظ ہیں، ان سب کو ہم تک پہنچانے میں علماء و مدارس کی اَنتھک کاوشوں، بے لوث محنتوں، بے غرض و بے ریا محبتوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔
 علماء اور مدارس نے اردو کا دامن قرآنِ پاک کی تفسیروں، حدیث کے تراجم و تشریحات، ادب، تصوف، فلسفہ اورتاریخ وغیرہ سے مزین کردیا۔ موجودہ دور میں بھی تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ مدارس ہی نے اردو زبان کو تدریسی زبان کے طور پر رائج کیا ہوا ہے اور ہزاروں مدارس میں موجود لاکھوں پاکستانی قوم کے فرزند اپنی قومی زبان میںہی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
اردوزبان و ادب کے فروغ اور پوری دنیا میں اردو کی ترویج و اشاعت میں جن علماء نے بے پایاں خدمات سر انجام دیں، ان کا شمار تو شاید ممکن نہیں، لیکن ان میں سے چند ایک کے نام اور ان کی خدمات کو برکت کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے ۔
دیگر زبانوں کو سمجھنے کے لیے اردو میں لغات کی بہت ضرورت تھی، خاص کرکے عربی زبان کو سمجھے بغیر اسلامی علوم و فنون تک پہنچنا ناممکن تھا، سو علماء نے اس سلسلہ میں کڑی محنت کی اور بے شمار علمی ذخیرہ سے بھر پور لغات مدون کیں، مثلاً:
٭…مصباح اللغات: مولانا ابوالفضل عبدالحفیظ بلیاوی ؒ
٭…قاموس القرآن اوربیان اللسان: مولاناقاضی زین العابدین سجاد میرٹھی۔
٭…القاموس الوحید، القاموس الجدید، القاموس الاصلاحی: مولانا وحید الزمان کیرانویؒ
٭…لغات جدیدہ: مولانا سید سلیمان ندویؒ
٭…قاموس الفقہ (۵ جلدیں): مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
٭…القاموس الموضوعی: مولانا ندیم الواجدی، وغیرہ، وغیرہ
وہ علماء جنہوں نے دینی خدمات تو سر انجام دی ہیں، لیکن ساتھ ساتھ ان کی ادبی تحاریر و تقاریر، شعرو سخن میں دسترس کو بھی مقبولیتِ عامہ حاصل ہوئی اور ایک دنیا نے ان کے علوم سے اکتسابِ فیض کیا، مثلاً قاسم العلوم والخیرات مولانا قاسم نانوتویؒ، (یہ فی البدیہہ شاعر بھی تھے)، مولانا یعقوب نانوتوی ؒ(بیاضِ نانوتوی، شعری مجموعہ)، مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ(ہمہ جہت شخصیت تھے، کمال کا ذوق پایہ تھا، نہایت عمدہ شاعر بھی تھے )، علامہ انور شاہ کاشمیری ؒ ان کی دینی خدمات سے کون واقف نہیں، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ چلتی پھرتی لائبریری ہیں (انہوں نے ۱۵۰۰۰ اشعار کہے)، علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ (آپ نثر کی ایک خاص طرز کے موجد بھی ہیں)، شیخ الادب مولانا اعزاز علی ؒ، مولانا قاری محمد طیب قاسمی ؒ، مفتی عتیق الرحمٰنؒ، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، مولانا احسان اللہ تاجورؒ، مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولوی عبدالحق  ؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ، علامہ شبلی نعمانی ؒ، مولانا محمد حسین آزادؒ، مولانا حالی ؒ، مولانا حسر ت موہانی ؒ، مولانا مملوک علی ؒ، مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ، مولانا محمد علی جوہر ؒ، مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ (فضائل اعمال والے)، مولانا محمد الیاس دہلویؒ (تبلیغی جماعت والے )، مولانا عبید اللہ سندھی ؒ، مولانا حسین احمد مدنی ؒ، مولانا منظور احمد نعمانی ؒ، مولانا سید بد ر عالم میرٹھیؒ، مولانا ادریس کاندھلوی ؒ، مولانا شمس الحق افغانی ؒ، مولانا قاضی اطہر مبارکپوریؒ، مولانا زکی کیفیؒ (کیفیات)، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، جناب ولی رازی صاحب (اردو میں سیرت کی پہلی غیر منقوط کتابـ ــ’’ہادیِ عالم‘‘ کے مصنف ) وغیرہ، شامل ہیں ۔
علماء اور مدارس اردو رسم الخط کی حفاظت میں بھی پیچھے نہیں رہے، بلکہ فنِ خطاطی میں بھی اپنی خدمات سر انجام دیں، چنانچہ موجودہ دور میں اردو رسم الخط(خطِ نستعلیق) کے مجدد استاذالعلماء سید نفیس الحسینی شاہ صاحب ؒ(نفیس رقم)کا نام نامی بہت نمایاں ہے، زمانہ ماضی میں خطِ نستعلیق کے استاذحافظ ابراہیم، خطِ نسخ و نستعلیق کے استاذ مولانا ابراہیم استر آبادیؒ، مولوی الٰہی بخش خوشنویسؒ، مولانا حسن بنائیؒ، مولانا خواجہ محمودؒ، مولوی سید سراج الدین احمدؒ، مولانا سلطان الدین احمدؒ، ملا عبدالقادر اخوندؒ، مولوی نذیرالدین قریشیؒوغیرہ گزرے ہیں۔
یہ چند ایک نام اور دو تین شعبہ جات صرف اس لیے ذکر کیے ہیں، تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ علما ء اور مدارس نے اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے اور ان سب چیزوں کو ان کی جزئیات سمیت ذکر کرنا اس مختصر کالم میں ممکن نہیں ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین