بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’لولاک لماخلقت الأفلاک‘‘کی حدیثی واسنادی حیثیت

 

’’لولاک لماخلقت الأفلاک‘‘کی حدیثی واسنادی حیثیت

’’ ماہنامہ ’’صدق‘‘ لکھنؤکے شمارہ نمبر:۳۳ ،صفحہ نمبر:۲ پر ’’لولاک لماخلقت الأفلاک‘‘کی روایت پر وضع حدیث کا حکم لگایا گیا تھا، محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v نے اس پر ’’استدراک‘‘ کرتے ہوئے مذکورہ روایت کی حدیثی واسنادی حیثیت پر کلام فرمایا تھا، جو آج سے تقریباً پچھتر سال قبل (۱۹۴۰ء کے لگ بھگ) ماہنامہ ’’صدق‘‘ لکھنؤ میں شائع ہوا تھا، مضمون کی افادیت کے پیش نظر ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں قندِ مکرر کے طور پر پیش خدمت ہے۔                                                                     (ادارہ)

استدراک      ابھی یاد آیا کہ ماہ رمضان کے کسی پرچہ میں حدیث’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘پر کسی سائل نے ’’اتفاقی موضوع ہونے‘‘ کا حکم لگایا تھا۔ اسنادی حیثیت سے قطع نظر کرکے آپ نے جو توجیہ فرمائی تھی وہ پسند آئی تھی۔ اُس وقت خیال آیاکہ حدیث مذکور کے متعلق کچھ عرض کیا جائے، لیکن یاد نہیں رہا۔ آج یاد آنے پر اجمالاً اتنا عرض کیے دیتا ہوں کہ بالکل یک طرفہ فیصلہ نہ ہو اور کسی قدر اسنادی اعتبار سے بھی حقیقت سامنے رہے :     ۱:… ’’لو لاک لما خلقت الأفلاک‘‘کے لفظ سے تو حدیث نہیں ہے ، البتہ اس کے ہم معنی الفاظ سے کتب حدیث میں موجو دہے :     الف:…(مستدرک حاکم،ج:۲،ص:۶۱۵) میں ابن عباس t کی روایت ہے : ’’قال:أوحی اللّٰہ إلی عیسٰی علیہ السلام: یا عیسٰی! آمن بمحمد وامر من أدرکتہٗ من أمتک أن یومنوا بہ فلولا محمد ماخلقت آدم ولولا محمد ماخلقت الجنۃ ولا النار ۔‘‘     ’’حاکم ابو عبد اللہv روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’ہٰذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ‘‘ حافظ ذہبیv اگرچہ فرماتے ہیں:’’أظنہٗ موضوعاً علی سعیدٍ‘‘لیکن کوئی وجہ اپنے گمان کی تائید میں بیان نہیں فرماسکے ۔      حافظ تقی الدین سبکیv اپنی کتاب ’’شفاء السقام‘‘ میں اور شیخ سراج الدین بلقینیv اپنے فتاویٰ میں حافظ ابوعبد اللہ حاکمv کی تائید میں اس کی تصحیح فرماتے ہیں: ’’ومثلہٗ لایقال رأیا فحکمہ الرفع۔‘‘     ب:…(نیز مستدرک حاکم ،ج:۲، ص:۶۱۵)میں اور ’’مجمع الزوائد، ج:۸، ص:۲۵۳ میں بحوالہ طبرانی حضرت عمر فاروق q کا ایک طویل اثر ہے جس میں حضرت آدم m کو یوں خطاب ہوا ہے:’’ولولا محمد ما خلقتُک۔‘‘ حاکمؒ نے اس کی بھی تصحیح فرمائی ہے۔ اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہے، موضوع ہونے کا حکم پھر بھی مشکل ہے۔ عبد الرحمن بن زید‘ ترمذی ، ابن ماجہ کے رجال سے ہے ۔     ج:…حضرت علی q کا ایک اثر’’ زرقانی شرح مواہب ‘‘میں ہے: ’’إن اللّٰہ قال لنبیہٖ:من أجلک  أسطح البطحاء وأموج الموج وأرفع السماء وأجعل الثواب والعقاب۔‘‘     ۲:… ان وجوہ کی بنا پر حدیث مذکور پر یہ حکم لگانا کہ موضوعی ہے اور اتفاقی موضوعی ہے ، کیوں کر صحیح ہے؟! ، بیہقی v، ابوالشیخ اصبہانیv وغیرہ نے بھی پہلی حدیث کی روایت کی ہے ۔      غرض حدیثی اور اسنادی اعتبار سے مطلقًا موضوعی کا حکم نہایت مشکل ہے، خصوصًا اتفاقی موضوعی کا حکم ۔ بہر حال یہ دونوں دعوے تحقیق و واقعیت کے خلاف ہیں۔ مزید بحث و تحقیق کے بعد ابھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، اس وقت صرف اجمال ہی عرض کرنا مقصود تھا ۔     ۳:…عقلی حیثیت سے تو حدیث مذکور کی تصحیح و تائید میں بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے، جس کی اس وقت حاجت نہیں۔ محدثین کی کتابوں میں کتنی حدیثیں ملتی ہیں کہ اسنادی اعتبار سے یا کسی خاص لفظ کے اعتبار سے یا مرفوع ہونے کے اعتبار سے ضعیف و ساقط ہوتی ہیں، لیکن معنوی حیثیت سے اور دوسری جہات سے وہ صحیح ہوتی ہیں جس کی تحقیق و تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ والسلام  ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین